Wednesday, August 27, 2014

میرے عزیز ہم وطنو

میرے عزیز ہم وطنو!

بہت دن سے جاری مُلک کے سیاسی بحران اور اُس کے بدلتے تیورں کو دیکھ ایک تلخ حقیقت یاد آگئی سوچا کہ اسے لفظوں میں پِرو کرو آپ سب کے پیشِ نظر کروں۔ 

پوسٹ کے شروع میں سب سے پہلے ماضی میں پیش آنے والے واقعہ کا ذکر کرتا چلوں. جناب زوالفقار علی بھٹو ایسا نام ہے جسے کم و بیش ہر پاکستانی جانتا ہے۔ غرض یہ کہ بھٹو صاحب نے اپنے دور میں بہت بھاگ دوڑ اور پاکستان کی ترقی اور سالمیت کے لیے منصوبہ بندیاں بھی کیں اور ایک قابل زکر کام اسلامک سَمِٹ کانفرنس کی میزبانی بھی تھا۔ ترقیاتی کاموں کے لیے بھٹو صاحب نے تقریباََ تمام پراجیکٹس اپنے ہمسایہ دوست مُلک چین کو دیے جو کہ ہمیشہ کی طرح خندہ پیشانی سے اس پیش کش کو قبول کرتے آئے ہیں اور اپنی خدمات بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ اب اس تصویر کا دوسرا پہلو دیکھتے ہیں کہ امریکہ سرکار جو کہ اس خطے میں بہت اثر انداز رہتا ہے کو یہ سودا منظور نہ تھا کہ خطیر مالیت کے پراجیکٹس چین کے ہاتھ چلے جائیں۔ اس زمر میں اُس دور میں ایسے ہی ایک قومی اتحاد کے نام سے تحریک چلائی گئی جو بُھٹو کے خلاف اُٹھائی گئی اور جنرل ضیاءالحق نے اس پر اپنا آمرانہ اثر رسوخ رکھا، اس سب بحران کی حالت میں آپ جانتے ہوں کہ جناب زوالفقار علی بھٹو صاحب نے چین کے لگاتار 4 دورے کیے تھے جن کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ انہیں اس عزاب سے چھُٹکارا دلوایا جائے مگر اندرونی پیدا کی گئی پھوُٹ کو چین کیسے روک سکتا تھا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُس وقت بھی خطیر رقوم کے عوض وہ بحران پیدا کیا گیا اور بھٹو صاحب کو میرے عزیز ہم وطنو سُننا پڑا۔  امریکہ سرکار کا کتنا اثر ہے یا ہم کتنے کمزور ہیں کہ ہم میں سے ہی کوئی اپنے ایمان کا سودا کر کے ریاست سے غداری کرتا ہے۔

مُشرف صاحب کے میرے عزیز ہم وطنو!  کا میں کوئی تزکرہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ واقعات کھُلی کتاب کی طرح ہیں اسے لکھ کر اپنا خوں جلانا نہیں چاہتا کہ کیسے ہمارے سیاستدانوں نے مل کر جمہوریت کا گلا گھونٹا تھا۔

اب بات کرتے ہیں موجودہ بحران کی ماضی کے ہی تناظر میں، مُشرف صاحب رخصت ہوئے، بی بی کی شہادت کے بعد مُلک میں ایک ایسی لہر چلی کے بہت سی مُسلم لیگی عورتوں نے بھی الیکشنز میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دیے اور اسے کامیاب کروا دیا، یوں زرداری صاحب صدارت کی کرسی پر اور بی بی کے بعد وزارت اعظمیٰ کے لیے گیلانی صاحب کو چُنا گیا۔ جو کہ اپنی نااہلی اور سوئیس کیس میں وزارت اعظمیٰ سے ہٹا دیے گئے۔ 2013 کے الیکشنز میں عوام نے پیپلز پارٹی کا خود احتساب کر لیا انہیں پنجاب سے بُری طرح ناکامی ہوئی وہ کہتے ہیں نہ کہ "جمہوریت بہترین انتقام ہے"، چونکہ پیپلز پارٹی کا زیادہ رجحان سندھ کی طرف رہا جہاں وڈیرہ گیری کے سر پر سندھ حکومت قائم کی۔ غرض یہ کہ تحریک انصاف کے نام سے ایک اُبھرتی ہوئی پارٹی کے لیڈر عمران خان نے الیکشنز سے پہلے الیکشنز کی شفافیت کے لیے عدلیہ سے الیکشن کروانے کی اپیل کی جسے باقی تمام پارٹیوں نے بھی مناسب سمجھا اور یہ کام پہلی بار عدلیہ کے سپُرد کیا گیا، الیکشن ہوئے اور ہر صوبہ میں وہاں کی اکثریتی اور اسی خطے کی نمائندگی کرنے والی جماعت نے اکثریت حاصل کی اور ہر صوبہ میں اسی قومیت کو حکمرانی کا موقع ملا۔

پنجاب میں پاکستان مُسلم لیگ نون نے کامیابی حاصل کی  وفاق میں اپنی حکومت قائم کی۔ اور ہمیشہ کی طرح میاں محمد نواز شریف نے مُلک کی باگ ڈور سنبھالی، جناب میاں نواز شریف کاروباری اور صنعت کار ہونے کی وجہ سے مُلکی صنعت و تجارت کو فروغ دینے کے لیے سر گرم عمل ہو گئے، چونکہ مُشرف کے 8 سالہ دور سے ہی کسی بھی سستی بجلی کے پراجیکٹ پر کام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے مُلکی صنعت تباہ و برباد ہو چکی تھی، ایک صنعت چلتی ہے تو 1500 لوگوں کے گھروں کا چولہا جلتا ہے اور بند ہو جائے تو خود سوچیں بے روزگاری ہو گی۔ ان حالات میں میاں نواز شریف نے سب سے پہلے انرجی کے پراجیکٹس پر کام شروع کیا جو جلد اور موجودہ تیل سے مہنگی ترین بجلی بنانے سے بہت کم خرچ ہو۔ ہمیشہ کی طرح مُشکل دور میں میاں صاحب نے اپنے ہمسایہ مُلک چین کا رُخ کیا اور ہمیشہ ہی کی طرح چین نے خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا اور اس مُشکل گھڑی میں پاکستان کو ہر مُمکن مدد اور اپنی خدمات پیش کرنے کی یقین دہانی کروائی اور بہت سے منصوبوں پر دستخط بھی ہوئے اور کام بھی شروع ہو گیا جس میں قابل زکر کوئیلے سے، شمسی توانائی سے اور سستی بجلی کے لیے داسو ڈیم وغیرہ پر تیزی سے کام شروع کر دیا گیا۔
مُلکی ترقی کی بھاگ دوڑ میں میاں صاحب بھول گئے کہ وہ وہی غلطی دہرا رہے ہیں جو کہ بھٹو صاحب نے کی تھی۔  اربوں ڈالر کے پراجیکٹ چین کو دے دیے گئے۔ اس سب کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ ایک اور معاہدہ ہوُا جس نے دبئی کے کاروباری مگرمچھوں کو بھی فکر میں ڈال دیا وہ تھا گوادر کاشغر کاریڈور اور ریلوے لائین۔ میاں صاحب اس بار گوادر کو فنکشنل کرنے کے لیے بہت پُر عزم ہیں اور اس پر کام شروع ہو چُکا، آپ خود اندازہ لگا لیجیے کہ اگر گوادر پورٹ فنکشنل ہو جائے تو ایشیا میں معیشت اور تجارت کا انقلاب آ جائے گا اور دبئی پورٹ کی قدر میں کمی واقع ہو گی۔ 

دوسری طرف مُشرف صاحب نے جو امریکہ کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تھی اُس نے پاکستان اور افواج پاکستان کو پچاس ہزار جانوں کا نزرانہ بھی پیش کیا اور ملکی معیشت سیاحت صنعت و تجارت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ بڑی بڑی صنعتییں دہشت گردی کی وجہ سے بنگلہ دیش اور دوبئی مُنتقل ہو گئیں، غرض یہ کہ مُلک بہت مُشکلات کا شکار تھا۔ اس کے حل کے لیے پاک فوج نے بہت اہم قدم اُٹھایا اور سول حکومت کو اعتماد میں لیتے ہوئے وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا اور مُلک میں جاری دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی واقعہ ہوئی۔ بہت سی عوام یہ بھی جانتی ہے کہ اس دہشت گردی کے گھناؤنےکاروبار سے امریکی اور روسی اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کا خاطر خواہ کاروبار چلتا تھا جو کہ انہیں اب بند ہوتا نظر آرہا ہے۔ 

مُلک میں جمہوریت کے زریعے اقتدار منتقل ہُوا جو کہ بڑی خوش آئیند بات ہے، مگر وہ لوگ اور عناصر جو مُلک کی فلاح سے زیادہ اپنے پیٹ کی فکر کرتے ہیں وہ کیسے آرام سے بیٹھ سکتے ہیں، پنجاب میں اکثریت سے جیتنے اور انفرادی طور پر ہی حکومت بنانے پر ان لوٹے نُما حضرات نے بہت کوشش کی میاں صاحب سے کوئی رعایت مل جائے یا ان کی قربت دوبار نصیب ہو جائے مگر میاں صاحب نے ان آزمائے ہوئے تیروں کو اپنے ترکش میں جگہ نہیں دی۔ اب ایسے میں وہ عناصر چُپب بیٹھنے والے تو تھے نہیں اور الیکشن میں بُری طرح ہارنے کے بعد انہیں اپنی کوئی روزی روٹی نظر نہیں آ رہی تھی۔  جیسے " کُتا قصائی کے پھٹے کی طرف ترسی نگاہوں سے دیکھتا ہے کہ اب قصائی ہاتھ جھٹکے گا اور کوئی چھیچھڑا کھانے کو ملے" ٹھیک ویسے ہی ان عناصر کی نظریں آبپارہ کی طرف جم گئیں اور ان کے شاطر دماغوں نے اپنی سیاست چمکانے اور اپنا پیٹ بھرنے کو ایک خونی پلان بنایا اور لندن کی ٹھنڈی فضاؤں میں بیٹھ کر مُشرف کی باقیات کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا جس میں تحریک انصاف اور جناب پادری صاحب شامل ہیں۔ اب مزے کی بات یہ کہ یہ دونوں جماعتیں چندے اور خیرات و زکوٰۃ کے پیسوں پر اپنی سیاسی دُکانداری چمکاتی ہیں۔ اور پاکستان کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے انہیں جو سٹیج تیار کرنا تھا اس پر کافی خرچ آتا۔ اس سلسلے میں بھی ان لوٹے عناصر نے دوبئی کے شیخوں اور جمہوریت و عدلیہ کے چنگل میں پھسے ایک کرپٹ جرنیل سے بھی بات کی کہ اس حکومت کے جانے سے سب سے پہلے آپ کو رہائی لے گی جس پر انہیں مالی معاونت گرین سگنل  ملا جس پر آؤ دیکھا نہ تاؤ سارے تانے بانے بُنے گئے ۔

یہاں میں سلیم صافی کے 23 اگست کے کالم "دھرنوں کےپیچھے کیا ہے؟" کا ریفرنس دیتا چلوں کے سلیم صافی نے بہت واضح لفظوں میں اس سب دھرنے اور حکومت و جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے پروگرام کو بے نقاب کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جو کہ پہلی بار حکومت میں آئی تھی نے جس منشور اور تبدیلی کے نعرے سے ووٹ حاصل کیے اس تبدیلی وعدے کو نبھانے میں ناکام رہی اور وجہ دھاندلی کو وہ جھوٹا رونا ہے جس کا ان کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔ خیر دھاندلی کا جیسے خان صاحب نے اپنے بچوں کو لیکچر دیا ہےاس سے پورا پاکستان سمجھ چُکا ہے کہ دھاندلی ہوتی کیا ہے :ڈ 
تحریک انصاف کو اس تختہ اُلٹنے کے لیے آمادہ کرنے کے لیے شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، شیری مزاری اور نامور شخصیت شیخ رشید کے زمہ داری لی اور طاہر القادری صاحب کو آمادہ کرنے کے لیے چوہدری برادران نے اپنی خدمات سر انجاب دیں اور دونوں پارٹیوں کے سربراہان کو یہی کہہ کر ورغلایا گیا کہ آپ اسلام آباد پہنچیں پاک فوج تو آپ کے انتظار میں بیٹھی ہے کہ آپ آ کر احتجاج کریں دھرنہ دیں وہ اگلے ہی دن میرے عزیز ہم وطنو کریں گے اور آپ کو وزارت اعظمیٰ نصیب ہو گی، اب مرنا یہ ہوُا کہ دونوں لیڈران کو یہی لارا لگایا گیا کہ آپ پر فوج اعتماد کر رہی ہے تو دونوں ہی خواب سجا بیٹھے کہ پریمیئر شپ میرے حصے میں آئے گی۔ اس ڈرامہ میں رنگ بھرنے کے لیے لوٹے حضرات نے پنجاب میں اپنا جو بچا کھُچا اثر و رسوخ تھا اسے استعمال کرتے ہوئے ماڈل ٹاؤن والے واقعہ میں لاشیں گروائیں ، ورنہ اس سے قبل کب ایسے احتجاج میں سیدھی گولیاں چلیں یا کیسےکوئی وزیر جسے پتا ہے کہ میں جو اپنے جلسہ میں تقریر بھی کرتا ہوں اسے مخالفین کس نظریے سے لیتے اور اس کا کیسے تمسخر اُڑاتے ہیں وہ کیونکر پولیس کو خود گولی چلانے کا آرڈر کر گا۔ خیر وہ بہت دلخراش واقعہ پیش آیا جس کے لیے پوری قوم یک زباں ہے کہ اس کے زمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے چاہے اس میں وزیر اعلیٰ ہی کیوں نہ مجرم قرار پائے۔  اس سب گراؤنڈ کی تیاری کے بعد بِگ شو کی باری تھی جسے 14 اگست کے دن بہتر سمجھا گیا کہ لوگ جوش و خروش میں اس دن زیادہ نکل آئیں گے مگر اس سارے پروگرام کی کوئی مضبوط پلاننگ نہیں کی گئی، اور ان کی کارکردگیوں اور حرکتوں بیانات کی وجہ سے بہت سی عوام ان سے متنفر بھی ہو چکی ہے اس لیے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے لاھور سے چلتے ہی ناکامی کے آثار نمودار ہو گئے تھے کہ عوام ان کے ساتھ نہیں ہے مگر واپسی بھی موت کے مُترادف تھی۔ اس کے برعکس طاہر القادری صاحب کے مدرسوں کا نیٹورک ہے جس میں ان کے ملازمین اساتذہ اور طلبا و طالبات بھی شامل ہیں نے ایک تعداد اکٹھی کر لی تھی۔  

ان دونوں کاروانوں کا عزم اور خواب ایک ہی ہے کہ میرے عزیز ہم وطنو سُننے کو مل جائے مگر مُشرف کر کرتوتوں اور اس کے بعد عدلیہ میں اس پرغداری کے چلنے والے مُقدمات کو دیکھ کر فوج اب خود سرحدوں اور ریاست کی حفاظت کو ہی اپنا فرض اور اس میں اپنا وقار سمجھتی ہے۔ دھرنے ہوئے اور چوہدری نثار صاحب کی مہربانی سے انہیں شاہراہ دستور تک پہنچنے کا موقع مل گیا جہاں یہ گھُس پیٹیے بن کر بیٹھے ہیں کہ ہم چند ہزار لوگ پورے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں اور ہمارے ساتھ ظلم ہُوا ہے اے پاک فوج آپ ہی بچا سکتے ہو ورنہ عدلیہ الیکشن کمیشن پولیس سب ڈاکو ہیں ہم شریف ہیں، اب خود سوچیے کہ یہ دھرنے وہاں 15 ہزار لوگوں کی خوراک کیسے پوری کی جارہی ہے کون انہیں اتنی خیرات یا زکوٰۃ دے رہا ہے کہ 1 ہزار روپے روزانہ پر دوسرے صوبوں اور شہروں سے لوگ لائے گئے ہیں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے لیے پٹرول اور کرایہ دیا جا رہا ہے حتی کہ باقی عوام کو بھی اُکسانے کے لیے موبائیل میں بیلنس بھی مُفت ڈال کر دیا جا رہا ہے، آخر کونسی طاقتیں ہیں جو جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے لیے پیسہ پانی کی طرح بہا رہی ہیں تا کہ حکومت اور جمہوریت ڈی ریل ہو، اربوں ڈالر کے شروع کیے گئے پراجیکٹ یہیں ٹھپ ہو جائیں کروڑوں روپے کی مشینری جو کراچی پورٹ پر پڑی ہے انرجی پراجیکتس کے لیے اسے زنگ لگ جائے عوام بے روزگاری سے ڈاکہ زنی چوری پر اُتر آئے، فوج سرحدیں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن چھوڑ کر سیاس میں ملوث ہو جائے  اور دبئی اور امریکہ کا کاروبار پھر سے رواں دواں ہو۔

میرے بھائیو ازحد کوشش کی ہے کہ اس پوسٹ کو طویل نہ کروں مگر پھر بھی کافی کُچھ لکھ دیا اور بہت کُچھ رہ بھی گیا جسے میں اپنی ٹویٹس کے لیے بچا رکھتا ہوں۔ 

کج فہم اور طفل مکتب ہوں آپ سب بہنوں بھائیوں سے اپنی اصلاح کی درخواست کروں گا کہ کہیں لکھنے میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو۔

آخر میں اپنے مُرشد جناب بٹ ساب ملکوالوی کی ایک خوبصورت بات کہتا چلوں کہ زاتیات اور جزباتیات سے نکل کر سوچیں اور فیصلے کریں اللہ آپ کو اور ہمارے اس پیارے پاکستان کو سلامت رکھیں، 
تالمت بالخیر

Friday, April 4, 2014

گلی کا کوڑا اور حکومت کی ناکامی

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ 

السلام و علیکم میرے تمام عزیز ہم وطنوں اور سمندر پار حصول رزق کے لیے پردیس کاٹتے میرے پیارے پاکستانیو۔ خود کو بہت روکنے کے باوجود آخر کار یہ پینڈو بھی لکھنے پر مجبور ہو گیا ہے، بہت عرصہ فلاحی اداروں کے توسط سے اپنے پاکستان کے تعلیمی اداروں اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا اور بہت سے حالات و واقعات کا سامنہ ہُوا، وہ سب واقعات میرے دل میں اور زہن میں نقش ہیں اس لیے سوچا کہ اس مسافر خانے (دُنیا) میں اپنا وقت گُزار کر جب واپسی کے لیے لختِ سفر باندھوں تو یہ واقعات اپنے ساتھ ہی مٹی کے نیچے دفن ہونے سے پہلے آپ لوگوں کی نظر کرتا چلوں۔ اچھا لگے یا بُرا یا اختلاف رائے ہو تو آپ سب سے تنقید برائے اصلاح کی اُمید رکھتا ہوں۔

اب آتے ہیں اس پوسٹ کی طرف جس کا نام گلی کا کوڑا اور حکومت کی ناکامی رکھا ہے، سوچا جب لکھنے بیٹھا ہوں تو پہلے اپنے قریبی رونما ہونے والے واقعات پر لکھنے کا سوچا۔

حکومت کی ناکامی:
مُلتان شہر کے ایک پوش علاقے کی ایک مسجد میں بعد نماز عصر ایک باریش بزرگ کھڑے ہوئے اور جماعت میں موجود تمام حضرات کو بہت احترام سے مخاطب ہو کر کُچھ وقت کی درخواست کی، مُجھ پینڈو جیسے ویہلے لوگوں نے انکی شخصیت سے متاثر ہو کر وہاں کُچھ دیر قیام کا سوچا اور دعا کے بعد 10 کے قریب لوگ ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے کہ آج کوئی دین کی بات سُننے کو ملے گی جو علم میں اضافہ کا باعث بن جائے، 

بزُرگ نے بہت ادب و احترام سے دعائیہ کلمات کے ساتھ اپنی گفتگو کا اظہار کیا، اور طہارت پاکیزگی سے بات شروع کرنے والے بزرگ نے کُچھ ہی دیر بعد اپنی گُفتگو کا رُخ سیاست کی طرف موڑتے ہوئے حکمرانوں کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیا، کہ اتنے بڑے پوش علاقہ اور ہاؤسنگ سوسائیٹی میں بھی صفائی کا کوئی انتظام نہیں، اسی کوڑا کرکٹ سے جراثیم جنم لے کر ہماری اور ہمارے بچوں کی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

میں جو بہت اُمید لے کر وہاں رُکا تھا اس سوچ میں مُبتلا ہو گیا کہ اب کیسے اس فتووں سے بھری محفل سے اجازت طلب کروں، چار و ناچار جیسے کمرہ جماعت میں ہاتھ بُلند کر کے اجازت لی جاتی ہے میں نے ان سے رخصت لی اور چلتا بنا اور گھر تک پہنچتے ہوئے یہ سوچتا گیا کہ وقت کو برباد ہی کیا۔ 

گلی کا کوڑا:
پچھلے کافی عرصہ سے حکومت پنجاب نے، گلی محلوں سے کوڑا اکٹھا کرنے والی گاڑیوں کی سہولت عوام الناس کو فراہم کی ہے جو قریب صبح 9 بجے اپنے مقررہ علاقوں میں گشت کرتی ہیں اور گھر کا کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے اسے شہر سے باہر تک پہنچانے کا کام سر انجام دیتی ہیں، عوام اپنی سہولت کے حساب سے کوڑے کی بالٹی یا اسے شاپر میں باندھ کر دروازے کے باہر رکھ دیتے ہیں جو کہ وہ میونسپل کارپوریشن والی گاڑی اُٹھا لے جاتی ہے، مسجد والے واقعہ سے ٹھیک 2 دن صبح 9 بجے والدہ محترمہ نے فرمایا کہ آج صفائی کرنے والی چھٹی پر ہے تو باہر سے گاڑی گُزرے گی تو کوڑے کی بالٹی باہر رکھ دیں، اتفاقاََ جس وقت میں بالٹی باہر رکھنے گیا تو وہ گاڑی ہمارے دروازے تک پہنچ چکی تھی، میونسپل کارپوریشن کے ملازم نے مجھے سوُٹ بوُٹ میں کوڑے کی بالٹی اُٹھائے دیکھ کر مُجھے کہا کہ بابوُ جی آپ دروازے پر رکھ دیتے ہماری ڈیوٹی ہے ہم اُٹھا لیتے۔ 
اسی اثنا میں میری نظر ہمارے گھر سے 4 گھر چھوڑ کر ایک عالیشان کوٹھی سے نکلتے ہوئے شاپر پر پڑی جو کہ ایسے پھینکا گیا تھا جیسے انڈر آرم تھرو کی جاتی ہے وکٹوں کا نشانہ لینے کے لیے، وہ شاپر کسی راشی پولیس افسر کے پیٹ کی مانند فل بھرا ہوا تھا اور لگ رہا تھا کہ یہ جہاں گرے گا وہاں خود کش حملے کے آفٹر ایفکٹس کا سا سما ہو گا، میں نے گاڑی والے کو آواز دی کے وہ کوڑا گرا دیا ہے کسی نے اسے بھی اٹھا لیں تو بھائی نا چاہتے ہوئے بھی واپس گیا اور اس کوڑے کو کسی اور شاپر میں ڈال  گاڑی تک لے آیا، اور میں روز مرہ کی طرح اپنی ڈیوٹی کی طرف روانہ ہو گیا، 

دوسرے دن والدہ سے معلوم ہوا کہ صفائی والی ماسی بیمار ہے آج بھی نہیں آئی تو آج پھر کوڑا باہر دروازے پر پہنچا دوں، میں اپنی والدہ کے حکم کی تعمیل کرتا باہر پہنچا اور گاڑی ٹھیک اپنے ٹائم پر آئی اور کوڑا لے کر آگے چلی گئی، میں اس کے بعد ناشتہ کر کے آفس کے لیے نکلا تو دیکھا کہ اسی دروازہ سے پھر ایک ویسا ہی کوڑے کا شاپر نمودار ہوا جسے دروازے کے اندر سے ہی کسی خاتوں نے اس بے نیازی سے پھینکا کے اگر کوئی گُزر رہا ہو تو اسی پر جا گرے، مُجھے بہت بُرا محسوس ہُوا اور دل میں ٹھانی کہ آفس سے واپسی پر اس گھر کے افراد سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ 

اس بات کو دل میں رکھے شام کو جب گھر واپس لوٹا تو مغرب کی نماز کے بعد میں اسی دروازہ پر رکا اور گلی کے گارڈ سے اس گھر کے افراد کے بارے میں معلوم کیا تو پتا چلا کہ وہ ایک انجینئر صاحب کا گھر ہے جو کہ آسٹریلیا میں جاب کرتے ہیں ان کے والد اور بیوی بچے یہاں 3 ماہ پہلے یہاں شفٹ ہوئے ہیں، اور انجینئیر صاحب کے والد بہت اچھی نفیس شخصیت ہیں، میں دروازے پر دستک دے کر کُچھ دیر انتظار کرتا رہا مگر کوئی بھی نمودار نہیں ہوا، دو بار اور دستک دے کر جواب نہ ملنے پر میں اس معاملے پر دوسرے وقت پر چھوڑ کر پلٹنے ہی لگا تو مسجد کی طرف سے وہی فتویٰ والے بزرگ آرہے تھے میں نے سلام میں پہل کی ان سے مصافح کیا اور گھر کی طرف چلنے لگا تو بزُرگ نے فرمایا جی بیٹا آپکو کیا کام تھا، آپ نے اس دروازے پر دستک دی، تو میں نے دریافت کیا کہ کیا آپ یہاں رہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ جی ہاں میں یہاں رہتا ہوں اپنی زوجہ اور بہو بچوں کے ساتھ۔

میرا جیسے حلق سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہو اور الفاظ گلے میں پھنس سے گئے ہوں اور چار و ناچار ہمت جُٹا کر اُن سے گُفتگو کا آغاز کیا کہ محترم روز صُبح ٹھیک 9 بجے کوڑے والی گاڑی گُزرتی ہے آپ مہربانی فرما کر گھر میں تاکید کر دیں کہ اس سے پہلے پہلے کوڑا باہر رکھ دیا کریں تا کہ وقت پر کوڑا اُٹھایا جا سکے اور انہیں نشاندہی کی کہ صبح کا آپ کا پھینکا ہوا شاپر ابھی تک گلی میں موجود ہے بلکہ بلیوں اور آوارہ کتوں نے اس کا پوسٹ مارٹم کر کے اسے دور دور تک پھیلا دیا ہے۔ بزُرگ نے بڑے واشگاف الفاظ میں اس الزام کو ماننے سے انکار کیا کہ ہم تو ڈسٹ بِن استعمال کرتے ہیں شاپر استعمال ہی نہیں کرتے۔ یہ کسی اور نے پھینکا ہوگا۔ اور بہت بُرا سا منہ بناتے ہوئے وہ گھر کے اندر چلے گئے، 

میں اپنا شرمندہ سا منہ لے کر گھر کی طرف چل پڑا اور یہ سوچتا آیا کہ حکومت اور منتظمین کو بُرا کہنے والے ہمارے بھائیوں بہنوں کو کیا اپنی اتنی سی زمہ داری کا احساس نہیں کہ اگر وہ 20 منٹ پہلے وہ کوڑا گھر سے نکال کر باہر رکھ دیں تو ٹائم پر کوڑا اُٹھا لیا جائے گا۔ 

اب آپ خود سوچیے کہ گاڑی نے صبح 9 بجے آنا ہے اُس کے بعد اگلے روز 9 بجے آنا ہوگا، اُن کے چلے جانے کے بعد پھینکا جانے والا کوڑا اگلے دن 9 بجے تک گلی کی زینت بنا رہے گا جو انہی بزرگ کے لیکچر کے مطابق جراثیم پیدا کرنے بیماریوں کا باعث بنے گا۔ کیا ہم معاشرے میں تبدیلی کا آغاز خود سے نہیں کر سکتے ؟ کب تک ہم دوسروں کو تلقین اور خود کو ان سب باتوں سے مُبرا سمجھتے رہیں گے؟

اپنی رائے سے ضرور نوازیے گا،