Monday, October 10, 2016

زرخیز مٹی


بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم 

بچوں اور ان کی تعلیم و تربیت بارے پہلے لکھ چکا ہوں اور بھی بہت کچھ ہے جس پر نگاہ کرنا ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں کچھ ننھی کلیاں ایسی بھی ہیں جنہیں ان کے والدین سمیت پورا معاشرہ کم تر سمجھتا ہے۔ ان بچوں میں جو معزور یا نارمل بچوں سے کم تر سمجھے جاتے ہیں ایک احساس کمتری پہلے سے موجود ہوتا ہے اور پھر معاشرے کا بےرحمی سے نظر انداز کرنا اس احساس کمتری کو اتنا پختہ کر دیتا ہے کہ وہ خود میں موجود پنہاں اور بہت سی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار نہیں لاتے۔ جتنے مشاہدات میں نے کیے اس حساب سے اس پر لکھنا اور اس مسئلے کو اجاگر کرنا ضروری سمجھا۔ 

سب سے پہلے نظر کرتے ہیں کہ بچے معزور کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ میں کوئی ڈاکٹر فزیشن یا سپیشلسٹ نہیں ہوں مگر تحقیق اور مطالعہ کا شوق رکھتا ہوں اور اس جستجو میں اپنے موضوع سے ہٹ کر بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک وقت تک بچوں میں معزوری اور ان کی اموات کی وجہ کچھ بیماریاں تھیں جن کی بروقت روک تھا اور دوا نہ کرنے سے بچے معزور رہ جاتے ہیں جس میں پولیو سر فہرست ہے اور اس مرض سے پاکستان آج بھی لڑ رہا ہے۔ دوسری وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ جینیٹک ہے کہ کزن در کزن شادیوں کی وجہ سے ایک نسل معزوری لے کر پیدا ہوتی ہے۔ اس جینیٹک مسئلہ پر بہت تحقیق اور آرٹیکل موجود ہیں اس لیے اس کا صرف حوالہ اس تحریر میں لکھا ہے۔  

یہاں دو مختلف ممالک کی کہانیاں بیان کروں گا ایک میرے اپنے خاندان سے منصوب ہے اور ایک کا مشاہدہ فیلڈ ورک کے  دوران ہوا۔ جیسا کہ تعلیم پر لکھے بلاگ میں ذکر کر چکا ہوں کہ لڑکیوں کی تعلیم پر بہت عرصہ کام کیا جس میں ایک پراجیکٹ Enhancing Girls Enrollment in Remote Areas of Pakistan تھا جس کے تحت دیہی اور دور دراز کے سرکاری سکولوں کی تعمیر و ترقی اور اساتذہ کی نئے طریقہ ہائے تدریس کی تربیت شامل تھی۔ اس سلسلہ میں ضرورت مند سکولوں کی نشاندہی کے بعد وہاں کے اہل علاقہ کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ایسے ہی مُلتان سے ملحقہ علاقے علی والا جو کہ شیر شاہ کے قریب واقع ہے کے سکول گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول علی والا کا انتخاب کیا گیا۔ علاقہ کے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا تاکہ سکول کا ترقیاتی منصوبہ عوامی مشاورت سے ترتیب دیا جاسکے۔ 

ہم وقت پر سکول پہنچے اور میٹنگ کے انتظامات کا جائزہ لیا جن بچیوں کے والدین نے سکول کی بہتری کے لیے اپنی خدمات کی حامی بھری وہ پہلے سے سکول میں موجود تھے۔ باقاعدہ میٹنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ہم نے مزید لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے سکول کی بچیوں کو اپنے والدین کو سکول لانے کے لیے روانہ کیا۔ میٹنگ کی جگہ کا انتظام دیکھتے ہوئے مجھے کلاس روم کی اس کھڑکی جو سکول کے باہر گلی میں کھلتی تھی میں ایک بچی کو کھڑے دیکھا جو کھڑکی کی جالیوں سے منہ لگائے کسی کو سرائیکی میں ڈانٹ رہی تھی  "اڑی تیکوں آکھا ہائی گھر ونج، استانی صاحبہ تیکوں کُٹے سی چل شاباش گھر ونج" ان الفاظ کو سُن کر تجسس
ہوا کہ بچی کس کو گھر جانے کو کہہ رہی ہے۔ میں خاموشی سے سکول سے باہر اس گلی میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کی ایک بچی ننگے پاؤں مٹی سے لت پت گلی میں اپنے ہاتھوں سے چہرے کو کور کر کے کھڑکی کی جالیوں سے سکول میں جھانک رہی ہے۔ میں نے اسے بیٹی کہہ کر آواز دی تو اس نے مجھے دیکھ کر وہاں سے دوڑ لگا دی۔ جو اکثر دیہاتی بچے کسی شہری کپڑوں میں ملبوس انسان کو دیکھ کر کرتے ہیں۔

میں خاموشی سے سکول کے اندر چلا آیا مگر دماغ میں تجسس بار بار دستک دیتا رہا۔ لوگوں کی مطلوبہ تعداد پہنچنے کے بعد ہم نے میٹنگ شروع کی اور ہمارے سوشل موبلائزرز نے سکول کی بہتری کے پراجیکٹ پر بات کرنا شروع کی مگر میرا دماغ اسی بچی کی سوچ میں مگن تھا کہ بچی کی عمر دیکھنے کو سکول جانے کی لگ رہی تھی مگر ایک بچی سکول میں تو اسے کیوں داخل نہیں کروایا گیا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد میں دوبارہ گلی میں گیا تو دیکھتا ہوں کہ وہی بچی گلی میں کھڑی ہماری گاڑی کے شیشوں پر جمی مٹی پر انگلی سے نقش و نگار بنا رہی ہے۔ میں اس بچی کے دھیان میں لائے بغیر اس کے قریب گیا اور سرائیکی میں اس سے اس کا نام پوچھا پہلے وہ کچھ ہچکچائی اور ایک لمحے کو لگا کہ وہ پھر بھاگ جائے گی مگر اس بچی نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا "ساما" اس کی زبان سے ادا ہوتے الفاظ سے اندازہ ہوا کہ بچی معزور ہے اور یہ سمجھنے میں بھی دیر نہیں لگی کہ آخر اسے سکول کیوں داخل نہیں کروایا گیا۔ 

میں نے اس بچی سے سوال کیا کہ سکول میں پڑھنا چاہتی ہے تو اس نے اس طرح اثبات میں سر ہلایا جیسے اس کی دلی خواہش میرے منہ سے نکل گئی ہو، میرے پاس ڈائری میں بچوں کے Learning level چیک کرنے کے اردو انگریزی اور ریاضی کے چند Tools موجود تھے وہ نکال کر میں نے بچی کو دکھاتے ہوئے کہا کہ قاعدہ لینا ہے ؟؟ بچی نے مثبت انداز میں سر ہلا کر جواب دیا جس پر میں بچی کو سکول کے اندر چلنے کو کہا اور اس بات پر بچی کے چہرے پر آئی رونق ایک دم خوف میں تبدیل ہو گئی اور اس نے سکول میں اندر جانے سے انکار کر دیا۔ بچی کی زہنی حالت کو سمجھتے ہوئے میں نے زیادہ اصرار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور وہ Tools اس بچی کو قاعدے کے طور پر دے کر خود سکول کے اندر چلا گیااور اس بچی کو تلاش کرنے لگا جو سکول کے اندر سے صائمہ کو گھر جانے کی تنبیہہ کر رہی تھی۔ بہت تلاش کے بعد مجھے وہ بچی سوئم (3) کلاس میں بیٹھی نظر آگئی، کلاس میں موجود معلمہ سے اجازت لے کر کلاس میں داخل ہوا اور ساری روداد ان کے گوش گزار کی جس پر انہوں نے کہا کہ وہ بچی معزور ہے صحیح سے بول نہیں سکتی اس کی بہن میری ہی کلاس میں پڑھتی ہے۔ میں نے درخواست کی کہ آپ اس بچی کو کل سکول بُلوا لیں میں اس بچی کا ٹسٹ لینا چاہتا ہوں جس پر انہوں نے حامی بھر لی۔ 

دوسرے دن میں سکول پہنچا تو وہ بچی اپنی بہن کے ساتھ کلاس روم میں موجود تھی اور مجھے کلاس میں داخل ہوتا دیکھ کر اس بچی کے چہرے پر آنے والی مسکراہٹ اس کے زہین ہونے کا یقین ہوا کہ ایک ملاقات میں بچی کو اتنی پہچان ہے ہو گئی تھی۔  میں وہیں ایک خالی ڈیسک پر بیٹھ گیا اور اس بچی کو پاس بُلایا کہ آپ کے لیے اور قاعدے لایا ہوں بچی نے سوالیا نظروں سے اپنی بڑی بہن کی طرف دیکھا جس نے اسے سر کے اشارے سے میرے پاس جانے کو کہا۔ میں نے اس کی بڑی بہن کو بھی پاس بُلایا اور پوچھا کہ اسے سکول میں داخل کیوں نہیں کروایا گیا تو معلوم ہوا کہ اسے کچی میں داخل کروایا تھا مگر یہ کلاس میں تنگ کرتی اور
سبق یاد نہیں کر پاتی تھی تو مس صاحبہ نے اسے گھر بھیج دیا تھا۔ میں نے اپنی ڈائری سے Tool نکالے اور اس بچی کو کہا کہ مُجھے پڑھ کر سُناؤ، اس بچی کو اردو حروف تہجی پورے آتے تھے اور انگلش کے کہیں کہیں اٹک رہی تھی۔ میں نے کاغذ نکالا اور اس بچی کے سامنے رکھا کہ جو یہاں لکھا ہے وہ کاغذ پر لکھ کر دکھائے۔ بچی نے ٹوٹے پھوٹے مگر حروف بالکل ٹھیک لکھے مطلب کہ بچی میں صلاحیت موجود تھی اورکحروف لکھنے کے بعد میرے شاباش دینے پر وہ کتنی خوش تھی میں الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ میں پہلے سے اس بچی کے لیے کچھ ٹافیاں اور چاکلیٹ لے کر گیا تھا جو میں نے انعام کے طور پر اس بچی کو دیں۔ اور کلاس میں اس کی بہن کے پاس بٹھا دیا۔ بعد ازاں سکول کا وقت ختم ہونے پر میں نے سکول کی 6 استانیوں سمیت ہیڈ معلمہ کو کچھ دیر رکنے کو کہا اور ایک کلاس روم میں میٹنگ کے لیے بلایا اور سوال کیا کہ یہ بچی سکول داخل ہونے آئی تھی ؟ تو جواب ملا کہ جی بالکل یہ سکول آئی تھی اور ہم نے اسے داخل بھی کیا تھا مگر یہ باقی بچوں کے قاعدے اور کاپیاں پھاڑ کر ان کے جہازبناتی ہے یا ان پر پنسل سے نقش و نگار بنا کر خراب کر دیتی تھی اس لیے ہم نے اسے گھر بھیج دیا کہ بچی ایبنارمل ہے۔ مجھے اس لفظ پر بہت دُکھ ہوا اور درخواست کی کہ بچی کے لیے ایسے الفاظ استعمال نہ کریں۔ بچی میں صلاحیت ہے آپ اسے داخل کریں ہم اپنے پراجیکٹ سے ایک پیرا ٹیچر جسے پراجیکٹ سے ہی تنخواہ دی جائے گی مقرر کرتے ہیں وہ اس بچی پر توجہ دے گی۔  ایسے دھتکارنے سے بچی پر منفی اثرات پڑیں گے۔ غرض کہ اس بچی کا نام داخل کروا کر میں نے اس کی بڑی بہن سے اس کے والدین سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مگر دیہی علاقوں میں خواتین پردہ داری کے پیش نظر اجنبیوں سے نہیں ملتیں تو میں نے ہیڈ معلمہ سے ہی درخواست کی کہ آپ اس بچی کے والدین کو سکول بلوائیں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ اس بچی پر خصوصی توجہ دیں نہ کہ معزور جان کر اسے نظر انداز کریں۔

بعد ازاں اس سکول میں جتنی بار بھی جانا ہوا وہ بچی مجھے خصوصی طور پر آکر ملتی تھی اور گھر سے باندھ کر لایا پراٹھا دیتی تھی۔ یا جتنی بار بھی اس سکول کی استانیوں کو ٹریننگ سیشن کے لیے بلاتے تھے وہ ہر بار اس بچی کا تذکرہ کرتی تھیں کہ صائمہ آپ کو بہت یاد کرتی ہے۔ اور جتنی بار بھی میرا سکول جانا ہوا وہ مجھے ایسے گلے ملتی تھی جیسے میں اس کاکوئی سگا رشتے دار ہوں۔ وہ بچی اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ دستکاری بھی سیکھ رہی ہے اور بہت اچھی کڑھائی کر لیتی ہے اور سُننے میں آیاتھا کہ سلائی کڑھائی سے وہ اپنی والدین کی مدد بھی کر رہی ہے جسے سُن کر مُجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ شاید اپنی اولاد کی کامیابی پر بھی کبھی اتنی خوشی نہ ہوئی ہو۔  ایسے بہت سے کیسز مجھے سابق وزیر خارجہ محترمہ حنا ربانی کھر صاحبہ کے آبائی علاقے بستی لسوڑی کھر کے علاقے میں بھی ملے،کیونکہ کھر فیملی اپنی بیٹیوں کو گھر بٹھا کر بوڑھا کر دیتے ہیں غیر خاندان میں شادی نہیں کرتے کہ جائداد خاندان سے باہر نہ جائے۔ مگر اس کے نتیجے میں ان کے ہاں پیدا ہونے والی اولادیں اس قدر معزوری کا شکار ہیں کہ ان کو دیکھ کر بھی ایک جھرجھری سی آتی ہے۔ ہماری کاوشوں کے باوجود کھروں کے علاقے میں فلاحی کام نہیں کرنے دیا گیا کہ ہمیں نہیں چاہیے تعلیم این جی اوز والے بے حیائی پھیلاتے ہیں خواتین بے پردہ  ہو کر مردوں کے ساتھ گھومتی ہیں وغیرہ وغیرہ 

اب ذکر کروں گا اپنے ہی ایک چچا کے بیٹے اور دوسرے چچا کی بیٹی کی اولاد کی۔ ہمارے معاشرے میں اپنے خاندان میں شادی ایک عام بات ہے۔ پرائی کو بسانے کے بجائے اپنے خاندان کی بچیوں کو بسانے کا رواج کم و بیش ہر ذات و پات والے خاندان میں پایا جاتا ہے۔ میرے بڑے چچا کویت میں کیمیکل انجینیر ہیں اور بہت اچھی پوسٹ پر پچھلے 17 سال سے تعینات ہیں ان کی شادی بھی ان کی کزن سے ہوئی جس بنا پر ان کے بڑے بیٹے کی قوت سماعت میں کچھ تھوڑی بہت معزوری کا عنصر موجود ہے۔ جوان ہونے پر جب اس کی شادی اپنے ہی چچا کی بیٹی سے کی گئی تو ان کے ہاں پیدا ہونے والی اولاد کو ریڑھ کی ہڈی میں موجود حرام مغز میں ایک پراسرار بیماری کا سامنا ہے، دُنیا جہان کے ڈاکٹرز اور فزیشنز کو دکھا لیا مگر اس بچے کا علاج ممکن نہیں ہوا۔ اس بیماری کی وجہ سے وہ بچہ چلنے پھرنے سے معزور ہے ۔ اس کے والدین دادا  دادی نے کونسا جتن ہو گا جو نہیں کیا۔ 

کویت میں اس بچے کو وہ جس جگہ بھی شاپنگ مال ہو یا پلے لینڈ ہر جگہ خاص رعایت اور خاص توجہ ملتی ہے۔ حتیٰ کہ ہوائی سفر کے دوران بھی اسے خاص رعایت دی جاتی ہے۔ اس بچے کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ والدین کی پریشانی بڑھتی چلی گئی کہ اسے سکول میں کیسے داخل کروائیں یہ تعلیم کیسے حاصل کرے گا۔ کیا بنے گا۔ جبکہ ٹانگوں اور نچلے دھڑ سے معزور بچا اتنا زہین ہے کہ ٹیب یا موبائل پر گیمز خود لگا لیتا ہے خود کھیلتا اور ٹاپ بھی کرتا ہے ۔

اب کچھ ذکر کروں گا اپنے ایک رشتہ دار کا جو 20 سال سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں ان کے ہاں 4 بچے بالکل ٹھیک ہوئے ایک بچہ ایسا پیدا ہوا جس کے دل اور پھیپھڑے میں سوراخ تھا اور دماغی کمزور بھی۔ یہاں داد کی مستحق آسٹریلیوی حکومت ہے کہ جس نے اس بچے کے علاج کے لیے دُنیا کے 6 بہترین اور ماہر سرجنز اور پروفیسر ڈاکٹرز کو آسٹریلیا بُلوایا اور اس بچے کے علاج یا سرجری کے لیے میٹنگز اور کنسلٹنسی کی۔ آج سے 4 سال پہلے اس بچے کا آسٹریلیا میں ہی کامیاب آپریشن ہوا اور باقاعدہ دیکھ بھال کے لیے ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف مقرر کیا گیا جو سرکاری خرچ پر اس  بچے کی صحت کو مانیٹر اور دیکھ بھال کرتا رہا۔ اس کے بعد اس بچے کو ایڈلیڈ کے اچھے سکول میں داخل کروایا گیا اور وہاں بھی اسے خصوصی توجہ دی گئی۔ غرض اس بچے کی وجہ سے والدین کو سرکار کی طرف سے  اضافی خرچ بھی دیا جاتا ہے اور ہر ماہ اس بچے کو تفریحی مقامات کی سیر کے لیے سہولیات اور پروٹوکول بھی دیا جاتا ہے۔ 

ان سب واقعات کو ایک جگہ رکھ کر سوچیے شاید آپ کے دل میں بھی یہ سوال جنم ہے کہ ہماری عدم توجہی ایسے ادھ کھلے پھول جو پہلے ہی قدرت کی طرف سے کسی کمی کا شکار ہیں کے مرجھانے کا سبب بنتی ہے۔ چاہے معزور ہیں بول نہیں سکتے سُن نہیں سکتے یا نارمل بچوں کی طرح نہیں تو کیا یہ ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ؟ پنجاب کی حد تک ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے علیحدہ سکول بنائے گئے ہیں اور ٹرانسپورٹ کی سروس بھی مہیا کی گئی ہے مگر باقی تین صوبوں میں ایسے بچوں کے لیے خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آتے۔ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا کے تیزی سے مشہور ہوتے ایک پلیٹ فارم Twitter پر خیبر پختونخواہ کے تین بھائی بہنوں نے ہم سے رابطہ کیا کہ ہمارے ہاں معزور بچوں کی تعلیم کے لیے پرائمری سے آگے کوئی سکول نہیں ہے اور جو چند پرائمری سکول ہیں وہاں بھی سہولیات کا فقدان ہے تو آپ ہماری مدد کریں کیونکہ آپ ایک سیاسی پارٹی کے لیے سوشل میڈیا پر تحریکیں چلاتےہیں تو ہماری بھی کچھ مدد کیجیے۔ سونیا نامی اس بچی کے لیے ہم نے ٹرینڈ بنائے مگر صحت اور تعلیم کے انصاف کے نعرے لگانے والی پختونخواہ حکومت نے پچھلے تین سالوں میں عام سکولوں کے لیے کچھ خاص اقدامات نہیں کیے تو معزور بچوں کی تعلیم پر کیا توجہ دینی تھی۔ اپنی تحریر کے توسط میں ان والدین سے تو اپیل کر ہی رہا ہوں کہ وہ اپنے معزوری کا یا کمی کا شکار بچوں کو کسی طور نظر انداز نہ کریں بلکہ نارمل بچوں سے زیادہ توجہ دیا کریں وہیں اپنی وفاقی حکومت سے درخواست بھی کروں گا کہ وہ ایسے بچوں کے لیے باقی تین صوبوں میں تعلیمی ادارے قائم کریں اور پہلے سے کمی کا شکار بچوں کو مزید کمی اور پسماندگی میں مت دھکیلیں۔ سیم اور تھور زدہ علاقے میں اگر کاشت ممکن نہیں تو اس زمین کا علاج سفیدے کے درخت ہیں جو روزانہ خاطر خواہ پانی زمین سے لیتے ہیں اور ان کی کاشت سے سیم و تھور زدہ زمین بھی قابل استعمال ہو سکتی ہے تو یہ تو پھر انسان ہیں اشرف المخلوقات ہیں یہ عدم توجہی کا شکار کیوں۔


دُنیا میں کئی ایسے معزور افراد بھی ہیں جو کامیابیوں کے زینوں کو عبور کرتے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ان کا ذکر کرنا ضروری ہو گا۔ ایسے لوگوں میں فزکس کے سائنسدان سٹیفین ہاکنگ ہیں جو پیدائشی معزور تو نہیں تھے مگر بعد ازاں ایک اعصابی بیماری کا شکار ہوئے کہ پورا جسم ان کے کنٹرول سے باہر ہو گیا۔ مگر ان میں موجود ہمت تھی جس نے انہیں فزکس میں ان کی مہارت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ ان میں اتنی لگن پیدا کی کہ معزوری کے باوجود انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا۔

تاریخ ایک اور ایسے انسان کو یاد رکھے گی جو ایسی معزوری لے کر پیدا ہوا جس میں نہ اس کے بازو تھے نہ ہی ٹانگیں مگر اس شخص میں ہمت و حوصلہ اتنا تھا کہ اس نے معزوری سے لڑنے کے لیے کئی مثالیں قائم کیں یونیورسٹیز کالجز اور شوز میں جا کر لوگوں کے حوصلے بلند کیے کہ معزوری آپ کی نیت اور آپ کی ہمت کے آڑے نہیں آ سکتی۔ مجھے اس شخص جس کا نام نِک وجیچِچ ہے نے اس قدر متاثر کیا کہ میں جو پہلے باقی سب لوگوں کی طرح معزور افراد کے لیے رحم اور ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا کو ایسے لوگوں کےلیے کچھ کرنے کی ہمت دی۔ نِک کی ایک ویڈیو کا لنک شیئر کررہا ہوں اور آپ سے درخواست کروں گاکہ ایک بار اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=oWEZZbcnEg4

غرض یہ کہ ہماری تھوڑی سی کاوش تھوڑی سی جستجو سے ایسے بچوں یا افراد کو وہ ہمت و حوصلہ مل سکتا ہے جس کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے لوگ اپنے اندر پنہاں صلاحیتوں کو سامنے لا سکتے ہیں ان میں موجود احساس کمتری کو ختم نہ سہی کسی حد تک کم ضرور کر سکتےہیں۔ آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ

" زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی "

@JawadAsghar4

Thursday, October 6, 2016

مار نہیں پیار


"ماسٹر صاحب اےمیرا وڈا پُتر اے، کھچ کے رکھنا، جے نہ پڑھے یا گل نہ منے تے کھل لہا دینا میرے ولوں اجازت اے "
یہ کہنا تھا ایک والد کا کلاس میں موجود استاد سے جو اپنے بچے کو سکول میں داخل کروا کر کلاس میں چھوڑنے آیا تھا۔ وہ شخص جس نے اپنے لخت جگر کو بڑے نازوں سے پالا تھا اور یقناََ بیٹے کی اچھی پڑھائی کی غرض سے اس نے یہ سب کہا ہو گا۔ عرصہ دراز تک سکولوں میں بچوں کی بہتری کے لیے ان پر تشدد ایک ضروری امر کے طور پر استعمال ہوتا رہا
 جب تک کہ کچھ بیہیمانہ تشدد کی رودادیں اور کیسز رپورٹ نہیں ہوئے۔

بچوں کی تعلیم ایک ایسا موضوع جس میں ہر شخص کو دلچسپی ہوتی ہے آپ کسی فورم پر اس موضوع کو زیر بحث لائیں تو معلوم پڑتا ہے کہ ہر فرقہ ہر طبقہ ہر مزہب کے لوگ نہ صرف متوجہ ہوں گے بلکہ اپنے تئیں کچھ نہ کچھ تبصرہ بھی ضرور کریں گے مگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو اس پر بہت کم لوگ عمل کرتے نظر آتے ہیں۔ تعلیم وہ زیور ہے جو بچوں کی شخصیت کو نکھارتا ہے معاشرے تہزیب قانون اور رہن سہن کے بہتر طریقے سکھاتا ہے ہمارے مزہب اسلام میں ہر مرد و عورت پر تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ ہم خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے معلم ہونے پر کتنا فخر محسوس کیا اور فرمایاہے۔


ہمارے ہاں تعلیم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بہت سے اساتذہ مار کو بچوں کی تعلیم اور ان کے رویوں میں فوری تبدیلی لانے کے لیے ایک مفید ہتھیار ہے۔ مُرغا بنا کر ڈرا کر دھمکا کر یا سب کے سامنے سزا دے کر اساتذہ بچے کو قواعد کی پابندی اور فوری اچھے تعلیمی نتائج حاصل کرنے پر مائل تو کر سکتے ہیں پر ان کی شخصیت میں نکھار نہیں لاسکتے جو خود اعتمادی بچے کو مستقبل میں کامیابی کے زینوں پر لے جاتی ہے وہ پیدا نہیں کر سکتے ۔ ایسے تناؤ والے ماحول میں بچہ اساتذہ کے احکامات کی تعمیل تو کرتا ہے مگرگھر سے سکول کے لیے نکلنے والے بچے پھر سکول سے بھاگنے اور سکول نہ جانے کو ترجیح دیتےہیں۔  ایک ادارے "الف اعلان" کی ایک رپورٹ کے مطابق آج بھی 70 فیصد اساتذہ مار کو بچوں کی تعلیم میں بہت مفید Tool سمجھتے اور استعمال کرتےہیں۔ اس معاملےمیں اساتذہ سے کیے گئے سوالات کے جوابات اور دلائل پر ایک نظر ڈالتے ہین۔

اساتذہ کرام کا نام لینا مناسب نہیں اس لیے ان کی سوچ اور دلائل کو آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ ایک استاد محترم سے جب یہ سوال کیا کہ مار کیوں ضروری ہے تو ان کا جواب تھا "جب آپ کو اپنی سپیشلائزیشن سے ہٹ کر کچھ پڑھانا پڑے تو بہت مشکلات پیش آتی ہیں جیسے ہم نے انگلش چھٹی جماعت سے پڑھی تھی اور اب ہمیں انگلش کی کتابیں تھما کر کہا گیا کہ پہلی جماعت سے انگلش پڑھائی جائے تو ہمیں مار کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور معلم سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ایسے سکولوں میں جہاں اساتذہ کی تعداد کم ہوتی ہے یا صرف دو ہوتی ہے وہاں اگر ایک استاد کو غیر تعلیمی سرگرمیوں (الیکشن یا کسی اور ڈیوٹی) پر جانا پڑتا ہے تو پورے سکول کی ذمہ داری ایک استاد پر رہ جاتی ہے اور اتنے بچوں کوپڑھانا فرد واحد کا کام نہیں تو مار کا استعمال کرنا پڑتا ہے جس کے ڈر سے بچے پڑھتے ہیں۔  
سال 2006 میں ساؤتھ ایشیا فورم فار ایجوکیشن ڈیولپمنٹ کی ایک میٹنگ میں National Child Policy پر عمل درآمد کا نعرہ لگایا گیا لیکن اگر آرٹیکل 89 آف پینل کوڈ 1860 کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس میں باقاعدہ 12 سال سے کم عمر بچوں کی فلاح کے لیے انہیں ہلکی پھلکی سزا کو قانون حیثیت حاصل ہے۔ اس قانون کے لے کر ایک اور سچا واقعہ اس تحریر کے اختتام میں آپ لوگوں کے گوش گزار کروں گا۔ جب قانون میں اس قسم کی سقم موجود ہو تو کیسے بچوں کے خلاف تشدد اور مار پیٹ کو روکا جا سکتا ہے۔ اس معاملے کو لے کر بارہا اقدامات کیے گئے مگر قانون میں تبدیلی کے بغیر اس کا سد باب کہیں ممکن نظر نہیں آتا۔

اس امر میں 27 مارچ 2014 کو وزارت قانون و انسانی حقوق نے SAIEVAC (South Asia Initiative to End Violance Against Children) کے ساتھ مل کر اس بچوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کا ہر فورم پر اور قانون لحاظ سے خاتمے کا اعادہ کیا اور اس کے تحت اسلام آباد میں 5سال سے 16 سال کے بچوں کے خلاف تشدد پر سخت قانون کاروائی کو یقینی بنایا۔ سوال یہ ہے کہ قانون بن جانے کے باوجود کیا اس بچے میں اتنا حوصلہ اور سکت ہوتی ہےکہ وہ خود پر کیے گئے تشدد کی شکایت کر سکے ؟ جس بچے کو تشدد اور سزا کے خوف نے گھیرا ہو وہ کیسے اس کی شکایت یا ازالے کی درخواست کر سکتا ہے ؟ اب ایک نظر ڈالتے ہیں ان عوامل پر جو بچوں پر تشدد کے سد باب میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں

سکول اور اساتذہ کا کردار

بچوں کی بہتر تعلیم اور تربیت کے لیے سکول بہت اہم محرک ہے۔ یہی وہ ادارہ ہے جہاں سے بچے کی تعلیم کا مقدس فریضہ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے یہی وہ ادارہ ہے جہاں سے بچے میں معاشرتی اقدار نشوونما پاتی ہیں۔ سکول کا ماحول دوستانہ اور گھر جیسا ہو اساتذہ پیار کرنے والے اور شفقت سے پیش آنے والے ہوں تو بچوں میں سکول اور تعلیم کے لیے رغبت بڑھتی  ہے ان کے اندر شوق پیدا ہوتا ہے اور اگر اس کے برعکس سکول میں بچوں کو تشدد ذلت و رسوائی ملے تو ان کی شخصیت نکھرنے کے بجائے بگڑتی ہے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے جو کہ بچے کے مستقبل کے لیے زہر کا کام کرتی ہیں۔ سکول بچوں کے مسائل حل کرنے کے بچائے اگر ان کے مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بن رہی ہو تو بچوں کی تعلیم و تربیت کا حال موجودہ حالات سے مختلف نہیں ہوتا۔ اس امر میں اگر سکول میں بچوں کے مسائل کے حل اور انہیں جاننے کے لیے اساتذہ کی کمیٹی بنا دی جائے تو وہ ان مسائل کے سد باب کے لیے بہت کارگر ثابت ہوتی ہے۔

والدین کا کردار

بہت دُکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے والدین بچوں کو سکول بھیج کر یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ اب ڈاکٹر یا انجینئر بن کر ان کا سہارہ بنے گا ان کا نام روشن کرے گا۔ یہاں تک کے والدین بچوں کے معاملات میں خاطر خواہ دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ جب بچے کے مسائل و معاملا ت میں والدین دلچسپی نہیں لیتے تو بچے کی شخصیت اور سوچ کیموفلاج ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کا ذہن مثبت سوچ رکھنا چھوڑ دیتا ہے۔ بچوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے والدین کو بچوں کے معاملات میں خصوصی دلچسپی لینا ہو گی جب تک آپ کو مسائل کا علم نہیں ہو گا آپ انہیں حل کیسے کریں گے۔ بچوں کے مسائل اور مشکلات کو جانیے اور اس سلسلہ میں ادارہ یا سکول سے اساتذہ سے روابط استوار کیجیے کہ ایک اور نسل نظر انداز نہ ہو جائے۔

محکمہ تعلیم کا کردار

والدین اساتذہ اور سکول  کے ساتھ ساتھ محکمہ تعلیم کا بھی بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت میں اہم کردار ہے۔ محکمہ تعلیم اگر مار نہیں پیار کا سلوگن سکولوں کے باہر لگا کر اور سکولوں میں احکامات جاری کر کے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے سد باب کے لیےاساتذہ کو تشدد کے متبادل مثبت اقدامات کی تربیت اور ٹریننگ دینا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ سکولوں میں تشدد کے خلاف سخت کاروائی کی تنبیہہ بھی محکمہ تعلیم کا فرض ہے نہ صرف اساتذہ کی مثبت تربیت بلکہ اس تربیت پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے اسے بھی یقینی بنانا محکمہ تعلیم کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس امر میں بہتر اقدامات کرنے اور مثبت رویے اور ماحول اپنانے والے سکولوں کو سالانہ انعامات دے کر باقی سکولوں کو بھی مثبت رویے اور ماحول اپنانے کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ سکولوں میں سزاؤں اور تشدد کے خلاف محکمہ تعلیم نے بہت کام کیا ہے مگر اس کے مکمل سد باب کے لیے والدین، اساتذہ اور محکمہ تعلیم کو مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

ایک واقعہ آپ سب کے گوش گزار کر کے تحریر کو سمیٹتا ہوں۔  قریب 18 سال پہلے ایک پاکستانی نوجوان ڈاکٹر کو انگلستان میں اچھی نوکری ملی۔ اچھے روزگار اور بہتر ماحول کی سوچ لے کر وہ ڈاکٹر وہاں جا بسا ۔ اپنی بیوی اور ایک بیٹی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا۔ بیٹی کو بھی وہیں سے تعلیم دلوائی۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک ایک دن اس کی بیٹی اپنے ساتھ ایک سکھ نوجوان کو لے کر آئی اور کہا کہ یہ میرا کلاس فیلو ہے اور میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ شش و پنج کا شکار والدین نے اس وقت تو کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا، مگر سکھ نوجوان کے جانے کے بعد بیٹی کو سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی مگر بیٹی کسی طور اپنے فیصلے سے ہٹنے کو تیار نہ تھی۔ ڈاکٹر نے بہت کوشش کی اسلامی مثالیں دیں کہ وہ غیر مذہب ہے اس سے شادی جائز نہیں مگر بیٹی نے ایک نہ سُنی۔ چار و نا چار ڈاکٹر نے اپنی بیٹی کو کمرے میں بند کر دیا۔ 3 روز گزرنے کے بعد وہ سکھ اپنے ساتھ پولیس لے کر ڈاکٹر کے گھر پہنچھ گیا۔ ڈاکٹر نے اس وقت یہ وعدہ کر کے سکھ اور پولیس کو روانہ کیا کہ ہمیں تیاری کا موقع دیں اور ایک ہفتے بعد آکر بیٹی سے شادی کر لیں۔ سخت قوانین اور ان پر عملداری کے پیش نظر وہ سِکھ نوجوان واپس چلا گیا۔ ڈاکٹر نے اس سے اگلے دو روز میں اپنی نوکری چھوڑی محنت اور لگن سے بنایا گھر بیچا اور تیسرے دن اپنے وطن پاکستان پہنچ گیا اور ایئر پورٹ پر اترتے ہیں اپنی بیٹی کو کہا کہ اب دیکھتا ہوں کہ کیسے تم ایک غیر مذہب شخص سے شادی کرتی ہو۔ یہ پاکستان ہے انگلستان نہیں۔

@JawadAsghar4

Saturday, October 1, 2016

آخر ذمہ داری کس کی ہے؟؟




جون 2012 کا گرم مرطوب دن تھا، دور دور تک کسی ہوٹل یا کھانے پینے کی دکان کا نام و نشان نہیں تھا، صبح 7 بجے سے سکولوں کے Baseline Survey کو نکلی ٹیم بھوک پیاس میں کوئی سائباں یا ہوٹل کی تلاش میں تھی۔ مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کے ملحقہ علاقے سناواں سے حنا ربانی کھر کے آبائی علاقے "بستی لسوڑی کھر"  کی خستہ حال سڑک تھی۔ بہت تلاش کے بعد ایک چائے کا ہوٹل نظر آیا، ہمارے ساتھ فیلڈ سٹاف میں دو خواتین اور ڈرائیور سمیت تین مرد تھے۔ دیہی علاقوں خواتین کے پردے کے احترام کی وجہ سےہم نے خواتین کو گآڑی میں ہی بیٹھنے کوکہا اور چائے پینے کی غرض سےہوٹل پر جا بیٹھے۔ 

ہوٹل کیا تھا ایک چھوٹا سا چائے کا کھوکھا تھا جس کے سامنے چارپائیوں پر گاؤں کے بزرگ بیٹھے چائے پی رہے تھے اور ٹیپیکل "پینڈو" سٹائیل میں سڑوووووپ سڑووووپ کی آوازوں کے ساتھ چائے پینے اور سرائیکی میں گفتگو میں مصروف تھے۔ اتنے میں ایک لڑکا جو عمر سے13 یا 14 سال کا لگ رہا تھا اخبار اٹھائے گلی سے نمودار ہوا اور ہمارے پاس بیٹھے بزرگوں کے پاس آ رُکا، او میڈھا پوتر آیا، چل میرا پوتر چاچے حنیف کو اخبار پڑھ کے سُنا" بزرگوں میں بیٹھے ایک بزرگ نے لبی تان لگائی، ان کی اس بات کو سُنتے ہی بچے کے چہرے  کا رنگ ماند پڑ گیا۔  نہ چاہتے ہوئے بھی بچے نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں اُلٹے سیدھے لفظ پڑھنا شروع کر دیے۔ اور درمیان میں ٹھیٹھ سرائیکی کے الفاظ بھی استعمال کرتا رہا۔ اس کی لڑکھڑاتی زبان سُن کر وہ بزرگ چاچا حنیف بولا۔ تیڈھے پوتر کوں تاں پڑھن دا ول ای نئیں آندا پیا، کیہڑی جماعت وچ اے ؟۔ چاچا حنیف کی اس بات پر وہ بزرگ جو بچے کے آنے پر بہت فخر سے اخبار پڑھنے کو کہہ رہا تھا اور شاید اس بچے کا باپ یا دادا تھا نے نہایت سخت الفاظ میں گالی دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے ماسٹر صاحب کا حال ہے۔ موٹی تنخواہ لیتے ہیں اور بچوں کو ککھ بھی نہیں پڑھاتے پانچویں کے بچے کا یہ حال ہے۔ 

آؤ دیکھا نہ تاؤ ان کے ساتھ بیٹھے ایک اور شخص نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور دو چار گالیوں کا اضافہ کرتے ہوئے سکول تعلیم اور اساتذہ کو گالیاں بکنا شروع کردیں۔ بے شک اس معاملے میں استاد قصور وار ہو گا یا نہیں مگر ایک معلم اور استاد کے بیٹے ہونے کی وجہ سے استاد کو گالیاں ملتی دیکھ کر مُجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے اس گفتگو میں کودنے کا فیصلہ کیا ہی تھا بچے کے باپ/دادا نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اے این جی او والے وی ڈرامہ ہن تصویراں چھکیندے اپنا مقصد پورا کریندے نکل ویندے ہن، نہ گورنمنٹ کو خیال آندا ہے نہ انہاں کو شرم آندی"

مجھ سے رہا نہ گیا اور نہایت احترام و عزت کے ساتھ ان بزرگ سے ان کا نام پوچھا انہوں نے اپنا نام حیات محمد بتایا اور قریبی گاؤں میں کھیتی باڑی اور بھانے (بھینسوں کا شوروم) چلانے کا بتایا۔ میں نے ان کے کاروبار اور اچھی صحت کی دعا دیتے ہوئے سب کو رسمی سلام کیا اور ان سب سے سوال پوچھا کہ چاچا جی آپ نے اپنے بیٹے کو سکول کب داخل کروایا تھا اور کس نے سکول داخل کروایا تھا۔ جس کے جواب میں انہوں نے بڑے فخر سے کہا کہ میں آپ داخل کروا کے آیا ہامی۔ میرا ان سے اگلا سوال تھا کہ کب داخل کروایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کچی وچ میں آپ ونج کے اکوں داخل کروا آیاں، سکول ساڈے گھر دے نال ای ہے، استاد ہوراں کو کھانا شانا چا پانی وی پلیندے رہ گئے ہاں پر بال دا حال ڈیکھ گھنو ہِک خبر کائ نی پڑھ سکدا۔ تُساں شہر توں آئے ہی وے تے ایں اُستاد دی رپورٹ محکمے کو کرو چا: میں نے سوال کیا کہ کچی میں داخلہ کروانے کے بعد آپ دوبارہ کب سکول گئے ؟ انہوں نے کہا کہ مُڑ ڈُو (2) واری سکول گیاں کوئی فنکشن ہائی۔ این جی او والے آئے ودھے ہن تے اوہناں سارے گاؤں والیاں کو سڈا ہائی۔ 

میں نے خفگی بھرے انداز میں بزرگوار سے کہا کہ آپ نے 5 سال پہلے بچے کو سکول داخل کروایا اس کے بعد سکول جا کر کبھی پوچھا تک نہیں کہ استاد کیا پڑھا رہا ہے یا ہمارے بچے کو سمجھ بھی آرہی ہےکہ نہیں۔ اور سوال کیا کہ کیا آپ نے کبھی بچے کو سکول سے گھر آنے پر سوال کیا کہ کیا پڑھ کر آئے ہو استاد صحیح پڑھا رہا ہے کہ نہیں تو ان کے پاس کوئی دوسرا جواب نہ تھا۔ 

من حیث القوم ہمارا ایک وطیرہ ہے کہ غلط بات یا کام دوسروں پر ڈال دو۔ ہم دوسروں کے معاملات میں بہترین جج اور اپنی غلطی اور معاملات میں بہترین وکیل بن جاتےہیں۔ اگر آپ کسی دیہی علاقے یا کسی شہری آبادی والے سرکاری سکول کا دورہ کریں تو اساتذہ کے منہ سے بھی کچھ اسی قسم کے الزامات نکلتے سنائی دیں گے جن کا ذکر بابا حیات محمد کر رہا تھا فرق صرف اتنا ہو گا کہ ان کے الزامات کا محور والدین ہوتے ہیں۔ 8 سال سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد اور معیارِ تعلیم کے بہتری پر کام کرنے کے بعد جو کمی مجھے نظر آئی وہ والدین اور سکول و اساتذہ کے درمیانی خلیج ہے۔ 

آپ اپنے بچے کو پرائیویٹ سکول داخل کروائیں اس کے بعد بھول جائیں نہ اس کا فالو اپ کریں تو حالات کچھ بابا حیات کے بیٹے یا پوتے جیسے دکھائی دیں گے۔ والدین بچے کو سکول داخل کروا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ اب اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کو تعلیم دیں۔ اور بڑھتی آبادی کے پیش نظر اور کچھ دیہی علاقوں میں اساتذہ کی کم تعداد بھی ایک وجہ ہے کہ اساتذہ اور بچوں کی مناسب تعداد جو جدید طریقہ ہائے تدریس میں درج کی گئی ہے سے بہت زیادہ ہے۔ جدید طریقہ ہائے تدریس میں ایک استاد زیادہ سے زیادہ 35 سے 40 بچوں کے لیے ضروری ہے۔ مگر دیہی علاقوں کے سکولوں میں ایک استاد کے پاس کم از کم 60 65 بچوں کی تعداد کی کلاس ہوتی ہے۔ 

اساتذہ 5 گھنٹے کے سکول ٹائم میں سلیبس بلیک بورڈ پر چھاپ کر سوچتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کر چکے اور والدین بچوں کو سکول بھیج کر۔ جبکہ دونوں کی ذمہ داری بچے کی تعلیم مکمل ہونے تک نہ کم ہوتی ہے نہ پوری ہوتی ہے۔ سرکاری سکولوں میں ایجوکیشن پالیسی 1972-80 کے تحت 1975 میں ایس ایم سی (سکول مینیجمنٹ کونسل) کے قیام کے باقاعدہ احکامات جاری کیے گئے تھے جس کے بعد تمام پرائمری، ایلیمنٹری اور ہائی سکول بشمول کالجز کے سکول کونسل بنانے کے پابند تھے۔ جس میں چئیرمین سکول کا سربراہ یعنی کے ہیڈ معلم یا پرنسپل ہوتا ہے اور کم از کم ارکان 7 ہوتے ہیں جن میں سے 2 سکول کے اساتذہ اور ایک علاقے کا نمبردار یا بڑا بزرگ اور باقی بچوں کے والدین کو رکھنے کی باقاعدہ سے ہدایات کی گئیں۔ اس پالیسی کے تحت پرائمری کو 30 ہزار روپے، ایلیمنٹری کو 60 ہزار اور ہائی یا ہائر سیکنڈری سکول کو ایک لاکھ کے قریب سالانہ فنڈ سکول کونسل کی مد میں دیا جاتا ہے۔ 

سکول کونسل اس فنڈ باقاعدہ میٹنگز میں سکول کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے استعمال کرنے کی مجاز ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو سکول کونسل اور فنڈ کے بارے میں جانتے ہیں اس لیے اس کا ذکر کرنا ضروری سمجھا۔ فیلڈ ورک کے دوران جو کمی سب سے زیادہ محسوس ہوئی وہ یہ بھی تھی کہ اساتذہ آڈٹ کے خوف سے اس فنڈ کو استعمال ہی نہیں کرتے اور وہ اکاؤنٹ میں پڑا ہی رہ جاتا ہے۔ سکول کونسل کو فعال نہ بنانے کا بڑا نقصان آپ نے اس تحریر کے شروع میں اس بچے کے تعلیمی لیول کی صورت دیکھ لیا ہے ۔ شہر کے پرائیویٹ سکولوں میں Parent Teacher Meeting کارواج ہے اور رزلٹ کے بعد بھی رزلٹ کارڈ پر والدین کے دستخط کہیں نہ کہیں والدین اور اساتذہ کے درمیان حائل خلیج یا دیوار کو توڑ دیتے ہیں اس لیے پرائیویٹ سکولوں کا تعلیمی معیار سب کو سرکاری سکول سے کہیں بہتر نظر آتا ہے۔ جبکہ پرائیویٹ سکول میں اساتذہ کی کم  تنخواہ اور کام کی زیادتی اساتذہ کرام کو صحیح سے ڈیلیور کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جبکہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہیں مناسب اور کام کی زیادتی بھی نہیں ہے۔ 

میں مانتا ہوں کہ دیہی علاقوں میں شرح خواندگی کم ہونے کے باعث والدین بچوں سے تعلیمی سوال و جواب یا پوچھ گچھ کرنے سے گریز کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بچے سے یہ بھی نہ پوچھیں کہ پڑھائی میں دل لگ رہا ہے کہ نہیں یا کوئی مسائل ہیں تو بتاؤ، یہ مسائل ہی جب زبان پر نہیں آتے تو ان کا حل کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ 

سکول کونسل کو فعال بنانے میں پاکستانی فلاحی ادارے "ادارہ تعلیم و آگہی" کا بہت اہم کردار ہے جسے بیلا رضا جمیل جیسی تعلیم اور قوم کا درد رکھنے والی خاتون چلا رہی ہیں۔ +Baela Raza Jamil @ITACEC1 ان کی کاوشیں جنوبی پنجاب سمیت بلوچستان اندرون سندھ اور پختونخواہ میں بہت حد تک سکولوں کی حالت بدلنے میں کار آمد ثابت ہوئیں۔ ان کی رات دن کی محنت اور آگہی مہم سے سکولوں میں سکول کونسل بہت حد تک فعال ہوئیں۔ بیلا رضا جمیل کی بہترین خدمات پر اقوام متحدہ نے اپنے 71ویں اجلاس کے ایجوکیشن سیشن میں انہیں خود دعوت دی کے آکر ایشیا میں تعلیمی صورتحال پر بریفنگ دیں۔ 


سکول کونسل کے بہت سے فوائد ہیں مگر یہاں اس کے ایک فائدے کا ذکر کر کے تحریر کو سمیٹتا ہوں کہ جو سب سے بڑا مسئلہ دیہی سرکاری سکولوں کو درپیش ہے وہ بچوں کی تعداد کے حساب سے اساتذہ کی کم تعداد ہے۔ اور اس مسئلے کو لے کر حکومت کو رگیدا جاتا ہے۔ جبکہ سکول کے پاس اتنے فنڈ اور اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ سکول کونسل کی مشاورت سے اپنے علاقے سے ہی ایک پڑھے لکھے استاد کو وہاں تدریس کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ جس سے بچوں کی تعداد کو اساتذہ میں مساوی تقسیم کر کے علم کی روشنی ہر بچے تک پہنچائی جا سکے۔ کلاس رومز کے لیے گرمیوں کے موسم میں پنکھے خریدے جا سکتے ہیں۔ لڑکیوں کے سکولوں میں چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے بے پردگی ہوتی اور والدین اسی سبب اپنی بچیوں کو سکول بھیجنے سے گُریز کرتے کہ نہ چار دیواری ہے اور نہ ہی لیٹرین۔ 

تعلیمی پراجیکٹس پر کام کرتے ہوئے ہم نے جتنے سکول دیکھے یا سیلیکٹ کیے ان سب میں سے کوئی ایک سکول بھی نہ سکول کونسل کو فعال کرتا تھا اور نہ ہی سکول کونسل فنڈ کو آڈٹ کے خوف سے استعمال کرتا تھا۔ سکول میں بجلی ہے مگر پنکھے نہیں تو سکول کونسل فنڈ سے خریدنے کی اجازت بھی ہے۔ حکومت پنجاب نے سکولوں میں بُنیادی ضروریات فراہم کرنے کے لیے انتھک محنت کی اور بہت حد تک اس میں کامیابی ملی بھی مگر بُنیادی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ آگہی مہم کی ضرورت ہے الف اعلان کی رپورٹ کے مطابق ابھی بھی لاکھوں کی تعداد میں بچے سکولوں سے باہر ہیں ان کے سکول داخلہ کے لیے جہاں حکومت کو کوششیں کرنی ہیں وہیں اساتذہ کو بھی آگے آنا ہو گا اور اپنےسکول سے ملحق علاقوں میں داخلہ مہم چلانی چاہیے اور اہل علاقہ کو بھی اس مہم میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ جب تک ہم تمام ذمہ داری حکومت اور اساتذہ پر ڈالتے رہیں گے تعلیی صورتحال کبھی بہتر نہ ہوگی۔

غرض یہ کہ ہمارے لیے مسائل کو مل جُل کر حل کرنے سے زیادہ آسان دوسروں پر الزام دھرنا ہے اور وہی ہم نے اپنا وطیرہ اپنایا ہوا ہے، سرکاری سکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے والے کسی بھی والدین کو لے کر ان سے سوال کر لیں وہ آپ کو سکول اساتذہ اور محکمہ تعلیم کو مورد الزام ٹھہراتے نظر آئیں گے۔  اور اس سب کے بعد جو سوال آپ کے ذہن میں اٹھے گا وہ ہو گا "آخر ذمہ داری کس کی ہے ؟

@JawadAsghar4