Monday, October 10, 2016

زرخیز مٹی


بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم 

بچوں اور ان کی تعلیم و تربیت بارے پہلے لکھ چکا ہوں اور بھی بہت کچھ ہے جس پر نگاہ کرنا ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں کچھ ننھی کلیاں ایسی بھی ہیں جنہیں ان کے والدین سمیت پورا معاشرہ کم تر سمجھتا ہے۔ ان بچوں میں جو معزور یا نارمل بچوں سے کم تر سمجھے جاتے ہیں ایک احساس کمتری پہلے سے موجود ہوتا ہے اور پھر معاشرے کا بےرحمی سے نظر انداز کرنا اس احساس کمتری کو اتنا پختہ کر دیتا ہے کہ وہ خود میں موجود پنہاں اور بہت سی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار نہیں لاتے۔ جتنے مشاہدات میں نے کیے اس حساب سے اس پر لکھنا اور اس مسئلے کو اجاگر کرنا ضروری سمجھا۔ 

سب سے پہلے نظر کرتے ہیں کہ بچے معزور کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ میں کوئی ڈاکٹر فزیشن یا سپیشلسٹ نہیں ہوں مگر تحقیق اور مطالعہ کا شوق رکھتا ہوں اور اس جستجو میں اپنے موضوع سے ہٹ کر بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک وقت تک بچوں میں معزوری اور ان کی اموات کی وجہ کچھ بیماریاں تھیں جن کی بروقت روک تھا اور دوا نہ کرنے سے بچے معزور رہ جاتے ہیں جس میں پولیو سر فہرست ہے اور اس مرض سے پاکستان آج بھی لڑ رہا ہے۔ دوسری وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ جینیٹک ہے کہ کزن در کزن شادیوں کی وجہ سے ایک نسل معزوری لے کر پیدا ہوتی ہے۔ اس جینیٹک مسئلہ پر بہت تحقیق اور آرٹیکل موجود ہیں اس لیے اس کا صرف حوالہ اس تحریر میں لکھا ہے۔  

یہاں دو مختلف ممالک کی کہانیاں بیان کروں گا ایک میرے اپنے خاندان سے منصوب ہے اور ایک کا مشاہدہ فیلڈ ورک کے  دوران ہوا۔ جیسا کہ تعلیم پر لکھے بلاگ میں ذکر کر چکا ہوں کہ لڑکیوں کی تعلیم پر بہت عرصہ کام کیا جس میں ایک پراجیکٹ Enhancing Girls Enrollment in Remote Areas of Pakistan تھا جس کے تحت دیہی اور دور دراز کے سرکاری سکولوں کی تعمیر و ترقی اور اساتذہ کی نئے طریقہ ہائے تدریس کی تربیت شامل تھی۔ اس سلسلہ میں ضرورت مند سکولوں کی نشاندہی کے بعد وہاں کے اہل علاقہ کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ایسے ہی مُلتان سے ملحقہ علاقے علی والا جو کہ شیر شاہ کے قریب واقع ہے کے سکول گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول علی والا کا انتخاب کیا گیا۔ علاقہ کے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا تاکہ سکول کا ترقیاتی منصوبہ عوامی مشاورت سے ترتیب دیا جاسکے۔ 

ہم وقت پر سکول پہنچے اور میٹنگ کے انتظامات کا جائزہ لیا جن بچیوں کے والدین نے سکول کی بہتری کے لیے اپنی خدمات کی حامی بھری وہ پہلے سے سکول میں موجود تھے۔ باقاعدہ میٹنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ہم نے مزید لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے سکول کی بچیوں کو اپنے والدین کو سکول لانے کے لیے روانہ کیا۔ میٹنگ کی جگہ کا انتظام دیکھتے ہوئے مجھے کلاس روم کی اس کھڑکی جو سکول کے باہر گلی میں کھلتی تھی میں ایک بچی کو کھڑے دیکھا جو کھڑکی کی جالیوں سے منہ لگائے کسی کو سرائیکی میں ڈانٹ رہی تھی  "اڑی تیکوں آکھا ہائی گھر ونج، استانی صاحبہ تیکوں کُٹے سی چل شاباش گھر ونج" ان الفاظ کو سُن کر تجسس
ہوا کہ بچی کس کو گھر جانے کو کہہ رہی ہے۔ میں خاموشی سے سکول سے باہر اس گلی میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کی ایک بچی ننگے پاؤں مٹی سے لت پت گلی میں اپنے ہاتھوں سے چہرے کو کور کر کے کھڑکی کی جالیوں سے سکول میں جھانک رہی ہے۔ میں نے اسے بیٹی کہہ کر آواز دی تو اس نے مجھے دیکھ کر وہاں سے دوڑ لگا دی۔ جو اکثر دیہاتی بچے کسی شہری کپڑوں میں ملبوس انسان کو دیکھ کر کرتے ہیں۔

میں خاموشی سے سکول کے اندر چلا آیا مگر دماغ میں تجسس بار بار دستک دیتا رہا۔ لوگوں کی مطلوبہ تعداد پہنچنے کے بعد ہم نے میٹنگ شروع کی اور ہمارے سوشل موبلائزرز نے سکول کی بہتری کے پراجیکٹ پر بات کرنا شروع کی مگر میرا دماغ اسی بچی کی سوچ میں مگن تھا کہ بچی کی عمر دیکھنے کو سکول جانے کی لگ رہی تھی مگر ایک بچی سکول میں تو اسے کیوں داخل نہیں کروایا گیا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد میں دوبارہ گلی میں گیا تو دیکھتا ہوں کہ وہی بچی گلی میں کھڑی ہماری گاڑی کے شیشوں پر جمی مٹی پر انگلی سے نقش و نگار بنا رہی ہے۔ میں اس بچی کے دھیان میں لائے بغیر اس کے قریب گیا اور سرائیکی میں اس سے اس کا نام پوچھا پہلے وہ کچھ ہچکچائی اور ایک لمحے کو لگا کہ وہ پھر بھاگ جائے گی مگر اس بچی نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا "ساما" اس کی زبان سے ادا ہوتے الفاظ سے اندازہ ہوا کہ بچی معزور ہے اور یہ سمجھنے میں بھی دیر نہیں لگی کہ آخر اسے سکول کیوں داخل نہیں کروایا گیا۔ 

میں نے اس بچی سے سوال کیا کہ سکول میں پڑھنا چاہتی ہے تو اس نے اس طرح اثبات میں سر ہلایا جیسے اس کی دلی خواہش میرے منہ سے نکل گئی ہو، میرے پاس ڈائری میں بچوں کے Learning level چیک کرنے کے اردو انگریزی اور ریاضی کے چند Tools موجود تھے وہ نکال کر میں نے بچی کو دکھاتے ہوئے کہا کہ قاعدہ لینا ہے ؟؟ بچی نے مثبت انداز میں سر ہلا کر جواب دیا جس پر میں بچی کو سکول کے اندر چلنے کو کہا اور اس بات پر بچی کے چہرے پر آئی رونق ایک دم خوف میں تبدیل ہو گئی اور اس نے سکول میں اندر جانے سے انکار کر دیا۔ بچی کی زہنی حالت کو سمجھتے ہوئے میں نے زیادہ اصرار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور وہ Tools اس بچی کو قاعدے کے طور پر دے کر خود سکول کے اندر چلا گیااور اس بچی کو تلاش کرنے لگا جو سکول کے اندر سے صائمہ کو گھر جانے کی تنبیہہ کر رہی تھی۔ بہت تلاش کے بعد مجھے وہ بچی سوئم (3) کلاس میں بیٹھی نظر آگئی، کلاس میں موجود معلمہ سے اجازت لے کر کلاس میں داخل ہوا اور ساری روداد ان کے گوش گزار کی جس پر انہوں نے کہا کہ وہ بچی معزور ہے صحیح سے بول نہیں سکتی اس کی بہن میری ہی کلاس میں پڑھتی ہے۔ میں نے درخواست کی کہ آپ اس بچی کو کل سکول بُلوا لیں میں اس بچی کا ٹسٹ لینا چاہتا ہوں جس پر انہوں نے حامی بھر لی۔ 

دوسرے دن میں سکول پہنچا تو وہ بچی اپنی بہن کے ساتھ کلاس روم میں موجود تھی اور مجھے کلاس میں داخل ہوتا دیکھ کر اس بچی کے چہرے پر آنے والی مسکراہٹ اس کے زہین ہونے کا یقین ہوا کہ ایک ملاقات میں بچی کو اتنی پہچان ہے ہو گئی تھی۔  میں وہیں ایک خالی ڈیسک پر بیٹھ گیا اور اس بچی کو پاس بُلایا کہ آپ کے لیے اور قاعدے لایا ہوں بچی نے سوالیا نظروں سے اپنی بڑی بہن کی طرف دیکھا جس نے اسے سر کے اشارے سے میرے پاس جانے کو کہا۔ میں نے اس کی بڑی بہن کو بھی پاس بُلایا اور پوچھا کہ اسے سکول میں داخل کیوں نہیں کروایا گیا تو معلوم ہوا کہ اسے کچی میں داخل کروایا تھا مگر یہ کلاس میں تنگ کرتی اور
سبق یاد نہیں کر پاتی تھی تو مس صاحبہ نے اسے گھر بھیج دیا تھا۔ میں نے اپنی ڈائری سے Tool نکالے اور اس بچی کو کہا کہ مُجھے پڑھ کر سُناؤ، اس بچی کو اردو حروف تہجی پورے آتے تھے اور انگلش کے کہیں کہیں اٹک رہی تھی۔ میں نے کاغذ نکالا اور اس بچی کے سامنے رکھا کہ جو یہاں لکھا ہے وہ کاغذ پر لکھ کر دکھائے۔ بچی نے ٹوٹے پھوٹے مگر حروف بالکل ٹھیک لکھے مطلب کہ بچی میں صلاحیت موجود تھی اورکحروف لکھنے کے بعد میرے شاباش دینے پر وہ کتنی خوش تھی میں الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ میں پہلے سے اس بچی کے لیے کچھ ٹافیاں اور چاکلیٹ لے کر گیا تھا جو میں نے انعام کے طور پر اس بچی کو دیں۔ اور کلاس میں اس کی بہن کے پاس بٹھا دیا۔ بعد ازاں سکول کا وقت ختم ہونے پر میں نے سکول کی 6 استانیوں سمیت ہیڈ معلمہ کو کچھ دیر رکنے کو کہا اور ایک کلاس روم میں میٹنگ کے لیے بلایا اور سوال کیا کہ یہ بچی سکول داخل ہونے آئی تھی ؟ تو جواب ملا کہ جی بالکل یہ سکول آئی تھی اور ہم نے اسے داخل بھی کیا تھا مگر یہ باقی بچوں کے قاعدے اور کاپیاں پھاڑ کر ان کے جہازبناتی ہے یا ان پر پنسل سے نقش و نگار بنا کر خراب کر دیتی تھی اس لیے ہم نے اسے گھر بھیج دیا کہ بچی ایبنارمل ہے۔ مجھے اس لفظ پر بہت دُکھ ہوا اور درخواست کی کہ بچی کے لیے ایسے الفاظ استعمال نہ کریں۔ بچی میں صلاحیت ہے آپ اسے داخل کریں ہم اپنے پراجیکٹ سے ایک پیرا ٹیچر جسے پراجیکٹ سے ہی تنخواہ دی جائے گی مقرر کرتے ہیں وہ اس بچی پر توجہ دے گی۔  ایسے دھتکارنے سے بچی پر منفی اثرات پڑیں گے۔ غرض کہ اس بچی کا نام داخل کروا کر میں نے اس کی بڑی بہن سے اس کے والدین سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مگر دیہی علاقوں میں خواتین پردہ داری کے پیش نظر اجنبیوں سے نہیں ملتیں تو میں نے ہیڈ معلمہ سے ہی درخواست کی کہ آپ اس بچی کے والدین کو سکول بلوائیں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ اس بچی پر خصوصی توجہ دیں نہ کہ معزور جان کر اسے نظر انداز کریں۔

بعد ازاں اس سکول میں جتنی بار بھی جانا ہوا وہ بچی مجھے خصوصی طور پر آکر ملتی تھی اور گھر سے باندھ کر لایا پراٹھا دیتی تھی۔ یا جتنی بار بھی اس سکول کی استانیوں کو ٹریننگ سیشن کے لیے بلاتے تھے وہ ہر بار اس بچی کا تذکرہ کرتی تھیں کہ صائمہ آپ کو بہت یاد کرتی ہے۔ اور جتنی بار بھی میرا سکول جانا ہوا وہ مجھے ایسے گلے ملتی تھی جیسے میں اس کاکوئی سگا رشتے دار ہوں۔ وہ بچی اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ دستکاری بھی سیکھ رہی ہے اور بہت اچھی کڑھائی کر لیتی ہے اور سُننے میں آیاتھا کہ سلائی کڑھائی سے وہ اپنی والدین کی مدد بھی کر رہی ہے جسے سُن کر مُجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ شاید اپنی اولاد کی کامیابی پر بھی کبھی اتنی خوشی نہ ہوئی ہو۔  ایسے بہت سے کیسز مجھے سابق وزیر خارجہ محترمہ حنا ربانی کھر صاحبہ کے آبائی علاقے بستی لسوڑی کھر کے علاقے میں بھی ملے،کیونکہ کھر فیملی اپنی بیٹیوں کو گھر بٹھا کر بوڑھا کر دیتے ہیں غیر خاندان میں شادی نہیں کرتے کہ جائداد خاندان سے باہر نہ جائے۔ مگر اس کے نتیجے میں ان کے ہاں پیدا ہونے والی اولادیں اس قدر معزوری کا شکار ہیں کہ ان کو دیکھ کر بھی ایک جھرجھری سی آتی ہے۔ ہماری کاوشوں کے باوجود کھروں کے علاقے میں فلاحی کام نہیں کرنے دیا گیا کہ ہمیں نہیں چاہیے تعلیم این جی اوز والے بے حیائی پھیلاتے ہیں خواتین بے پردہ  ہو کر مردوں کے ساتھ گھومتی ہیں وغیرہ وغیرہ 

اب ذکر کروں گا اپنے ہی ایک چچا کے بیٹے اور دوسرے چچا کی بیٹی کی اولاد کی۔ ہمارے معاشرے میں اپنے خاندان میں شادی ایک عام بات ہے۔ پرائی کو بسانے کے بجائے اپنے خاندان کی بچیوں کو بسانے کا رواج کم و بیش ہر ذات و پات والے خاندان میں پایا جاتا ہے۔ میرے بڑے چچا کویت میں کیمیکل انجینیر ہیں اور بہت اچھی پوسٹ پر پچھلے 17 سال سے تعینات ہیں ان کی شادی بھی ان کی کزن سے ہوئی جس بنا پر ان کے بڑے بیٹے کی قوت سماعت میں کچھ تھوڑی بہت معزوری کا عنصر موجود ہے۔ جوان ہونے پر جب اس کی شادی اپنے ہی چچا کی بیٹی سے کی گئی تو ان کے ہاں پیدا ہونے والی اولاد کو ریڑھ کی ہڈی میں موجود حرام مغز میں ایک پراسرار بیماری کا سامنا ہے، دُنیا جہان کے ڈاکٹرز اور فزیشنز کو دکھا لیا مگر اس بچے کا علاج ممکن نہیں ہوا۔ اس بیماری کی وجہ سے وہ بچہ چلنے پھرنے سے معزور ہے ۔ اس کے والدین دادا  دادی نے کونسا جتن ہو گا جو نہیں کیا۔ 

کویت میں اس بچے کو وہ جس جگہ بھی شاپنگ مال ہو یا پلے لینڈ ہر جگہ خاص رعایت اور خاص توجہ ملتی ہے۔ حتیٰ کہ ہوائی سفر کے دوران بھی اسے خاص رعایت دی جاتی ہے۔ اس بچے کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ والدین کی پریشانی بڑھتی چلی گئی کہ اسے سکول میں کیسے داخل کروائیں یہ تعلیم کیسے حاصل کرے گا۔ کیا بنے گا۔ جبکہ ٹانگوں اور نچلے دھڑ سے معزور بچا اتنا زہین ہے کہ ٹیب یا موبائل پر گیمز خود لگا لیتا ہے خود کھیلتا اور ٹاپ بھی کرتا ہے ۔

اب کچھ ذکر کروں گا اپنے ایک رشتہ دار کا جو 20 سال سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں ان کے ہاں 4 بچے بالکل ٹھیک ہوئے ایک بچہ ایسا پیدا ہوا جس کے دل اور پھیپھڑے میں سوراخ تھا اور دماغی کمزور بھی۔ یہاں داد کی مستحق آسٹریلیوی حکومت ہے کہ جس نے اس بچے کے علاج کے لیے دُنیا کے 6 بہترین اور ماہر سرجنز اور پروفیسر ڈاکٹرز کو آسٹریلیا بُلوایا اور اس بچے کے علاج یا سرجری کے لیے میٹنگز اور کنسلٹنسی کی۔ آج سے 4 سال پہلے اس بچے کا آسٹریلیا میں ہی کامیاب آپریشن ہوا اور باقاعدہ دیکھ بھال کے لیے ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف مقرر کیا گیا جو سرکاری خرچ پر اس  بچے کی صحت کو مانیٹر اور دیکھ بھال کرتا رہا۔ اس کے بعد اس بچے کو ایڈلیڈ کے اچھے سکول میں داخل کروایا گیا اور وہاں بھی اسے خصوصی توجہ دی گئی۔ غرض اس بچے کی وجہ سے والدین کو سرکار کی طرف سے  اضافی خرچ بھی دیا جاتا ہے اور ہر ماہ اس بچے کو تفریحی مقامات کی سیر کے لیے سہولیات اور پروٹوکول بھی دیا جاتا ہے۔ 

ان سب واقعات کو ایک جگہ رکھ کر سوچیے شاید آپ کے دل میں بھی یہ سوال جنم ہے کہ ہماری عدم توجہی ایسے ادھ کھلے پھول جو پہلے ہی قدرت کی طرف سے کسی کمی کا شکار ہیں کے مرجھانے کا سبب بنتی ہے۔ چاہے معزور ہیں بول نہیں سکتے سُن نہیں سکتے یا نارمل بچوں کی طرح نہیں تو کیا یہ ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ؟ پنجاب کی حد تک ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے علیحدہ سکول بنائے گئے ہیں اور ٹرانسپورٹ کی سروس بھی مہیا کی گئی ہے مگر باقی تین صوبوں میں ایسے بچوں کے لیے خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آتے۔ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا کے تیزی سے مشہور ہوتے ایک پلیٹ فارم Twitter پر خیبر پختونخواہ کے تین بھائی بہنوں نے ہم سے رابطہ کیا کہ ہمارے ہاں معزور بچوں کی تعلیم کے لیے پرائمری سے آگے کوئی سکول نہیں ہے اور جو چند پرائمری سکول ہیں وہاں بھی سہولیات کا فقدان ہے تو آپ ہماری مدد کریں کیونکہ آپ ایک سیاسی پارٹی کے لیے سوشل میڈیا پر تحریکیں چلاتےہیں تو ہماری بھی کچھ مدد کیجیے۔ سونیا نامی اس بچی کے لیے ہم نے ٹرینڈ بنائے مگر صحت اور تعلیم کے انصاف کے نعرے لگانے والی پختونخواہ حکومت نے پچھلے تین سالوں میں عام سکولوں کے لیے کچھ خاص اقدامات نہیں کیے تو معزور بچوں کی تعلیم پر کیا توجہ دینی تھی۔ اپنی تحریر کے توسط میں ان والدین سے تو اپیل کر ہی رہا ہوں کہ وہ اپنے معزوری کا یا کمی کا شکار بچوں کو کسی طور نظر انداز نہ کریں بلکہ نارمل بچوں سے زیادہ توجہ دیا کریں وہیں اپنی وفاقی حکومت سے درخواست بھی کروں گا کہ وہ ایسے بچوں کے لیے باقی تین صوبوں میں تعلیمی ادارے قائم کریں اور پہلے سے کمی کا شکار بچوں کو مزید کمی اور پسماندگی میں مت دھکیلیں۔ سیم اور تھور زدہ علاقے میں اگر کاشت ممکن نہیں تو اس زمین کا علاج سفیدے کے درخت ہیں جو روزانہ خاطر خواہ پانی زمین سے لیتے ہیں اور ان کی کاشت سے سیم و تھور زدہ زمین بھی قابل استعمال ہو سکتی ہے تو یہ تو پھر انسان ہیں اشرف المخلوقات ہیں یہ عدم توجہی کا شکار کیوں۔


دُنیا میں کئی ایسے معزور افراد بھی ہیں جو کامیابیوں کے زینوں کو عبور کرتے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ان کا ذکر کرنا ضروری ہو گا۔ ایسے لوگوں میں فزکس کے سائنسدان سٹیفین ہاکنگ ہیں جو پیدائشی معزور تو نہیں تھے مگر بعد ازاں ایک اعصابی بیماری کا شکار ہوئے کہ پورا جسم ان کے کنٹرول سے باہر ہو گیا۔ مگر ان میں موجود ہمت تھی جس نے انہیں فزکس میں ان کی مہارت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ ان میں اتنی لگن پیدا کی کہ معزوری کے باوجود انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا۔

تاریخ ایک اور ایسے انسان کو یاد رکھے گی جو ایسی معزوری لے کر پیدا ہوا جس میں نہ اس کے بازو تھے نہ ہی ٹانگیں مگر اس شخص میں ہمت و حوصلہ اتنا تھا کہ اس نے معزوری سے لڑنے کے لیے کئی مثالیں قائم کیں یونیورسٹیز کالجز اور شوز میں جا کر لوگوں کے حوصلے بلند کیے کہ معزوری آپ کی نیت اور آپ کی ہمت کے آڑے نہیں آ سکتی۔ مجھے اس شخص جس کا نام نِک وجیچِچ ہے نے اس قدر متاثر کیا کہ میں جو پہلے باقی سب لوگوں کی طرح معزور افراد کے لیے رحم اور ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا کو ایسے لوگوں کےلیے کچھ کرنے کی ہمت دی۔ نِک کی ایک ویڈیو کا لنک شیئر کررہا ہوں اور آپ سے درخواست کروں گاکہ ایک بار اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=oWEZZbcnEg4

غرض یہ کہ ہماری تھوڑی سی کاوش تھوڑی سی جستجو سے ایسے بچوں یا افراد کو وہ ہمت و حوصلہ مل سکتا ہے جس کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے لوگ اپنے اندر پنہاں صلاحیتوں کو سامنے لا سکتے ہیں ان میں موجود احساس کمتری کو ختم نہ سہی کسی حد تک کم ضرور کر سکتےہیں۔ آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ

" زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی "

@JawadAsghar4

Thursday, October 6, 2016

مار نہیں پیار


"ماسٹر صاحب اےمیرا وڈا پُتر اے، کھچ کے رکھنا، جے نہ پڑھے یا گل نہ منے تے کھل لہا دینا میرے ولوں اجازت اے "
یہ کہنا تھا ایک والد کا کلاس میں موجود استاد سے جو اپنے بچے کو سکول میں داخل کروا کر کلاس میں چھوڑنے آیا تھا۔ وہ شخص جس نے اپنے لخت جگر کو بڑے نازوں سے پالا تھا اور یقناََ بیٹے کی اچھی پڑھائی کی غرض سے اس نے یہ سب کہا ہو گا۔ عرصہ دراز تک سکولوں میں بچوں کی بہتری کے لیے ان پر تشدد ایک ضروری امر کے طور پر استعمال ہوتا رہا
 جب تک کہ کچھ بیہیمانہ تشدد کی رودادیں اور کیسز رپورٹ نہیں ہوئے۔

بچوں کی تعلیم ایک ایسا موضوع جس میں ہر شخص کو دلچسپی ہوتی ہے آپ کسی فورم پر اس موضوع کو زیر بحث لائیں تو معلوم پڑتا ہے کہ ہر فرقہ ہر طبقہ ہر مزہب کے لوگ نہ صرف متوجہ ہوں گے بلکہ اپنے تئیں کچھ نہ کچھ تبصرہ بھی ضرور کریں گے مگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو اس پر بہت کم لوگ عمل کرتے نظر آتے ہیں۔ تعلیم وہ زیور ہے جو بچوں کی شخصیت کو نکھارتا ہے معاشرے تہزیب قانون اور رہن سہن کے بہتر طریقے سکھاتا ہے ہمارے مزہب اسلام میں ہر مرد و عورت پر تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ ہم خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے معلم ہونے پر کتنا فخر محسوس کیا اور فرمایاہے۔


ہمارے ہاں تعلیم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بہت سے اساتذہ مار کو بچوں کی تعلیم اور ان کے رویوں میں فوری تبدیلی لانے کے لیے ایک مفید ہتھیار ہے۔ مُرغا بنا کر ڈرا کر دھمکا کر یا سب کے سامنے سزا دے کر اساتذہ بچے کو قواعد کی پابندی اور فوری اچھے تعلیمی نتائج حاصل کرنے پر مائل تو کر سکتے ہیں پر ان کی شخصیت میں نکھار نہیں لاسکتے جو خود اعتمادی بچے کو مستقبل میں کامیابی کے زینوں پر لے جاتی ہے وہ پیدا نہیں کر سکتے ۔ ایسے تناؤ والے ماحول میں بچہ اساتذہ کے احکامات کی تعمیل تو کرتا ہے مگرگھر سے سکول کے لیے نکلنے والے بچے پھر سکول سے بھاگنے اور سکول نہ جانے کو ترجیح دیتےہیں۔  ایک ادارے "الف اعلان" کی ایک رپورٹ کے مطابق آج بھی 70 فیصد اساتذہ مار کو بچوں کی تعلیم میں بہت مفید Tool سمجھتے اور استعمال کرتےہیں۔ اس معاملےمیں اساتذہ سے کیے گئے سوالات کے جوابات اور دلائل پر ایک نظر ڈالتے ہین۔

اساتذہ کرام کا نام لینا مناسب نہیں اس لیے ان کی سوچ اور دلائل کو آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ ایک استاد محترم سے جب یہ سوال کیا کہ مار کیوں ضروری ہے تو ان کا جواب تھا "جب آپ کو اپنی سپیشلائزیشن سے ہٹ کر کچھ پڑھانا پڑے تو بہت مشکلات پیش آتی ہیں جیسے ہم نے انگلش چھٹی جماعت سے پڑھی تھی اور اب ہمیں انگلش کی کتابیں تھما کر کہا گیا کہ پہلی جماعت سے انگلش پڑھائی جائے تو ہمیں مار کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور معلم سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ایسے سکولوں میں جہاں اساتذہ کی تعداد کم ہوتی ہے یا صرف دو ہوتی ہے وہاں اگر ایک استاد کو غیر تعلیمی سرگرمیوں (الیکشن یا کسی اور ڈیوٹی) پر جانا پڑتا ہے تو پورے سکول کی ذمہ داری ایک استاد پر رہ جاتی ہے اور اتنے بچوں کوپڑھانا فرد واحد کا کام نہیں تو مار کا استعمال کرنا پڑتا ہے جس کے ڈر سے بچے پڑھتے ہیں۔  
سال 2006 میں ساؤتھ ایشیا فورم فار ایجوکیشن ڈیولپمنٹ کی ایک میٹنگ میں National Child Policy پر عمل درآمد کا نعرہ لگایا گیا لیکن اگر آرٹیکل 89 آف پینل کوڈ 1860 کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس میں باقاعدہ 12 سال سے کم عمر بچوں کی فلاح کے لیے انہیں ہلکی پھلکی سزا کو قانون حیثیت حاصل ہے۔ اس قانون کے لے کر ایک اور سچا واقعہ اس تحریر کے اختتام میں آپ لوگوں کے گوش گزار کروں گا۔ جب قانون میں اس قسم کی سقم موجود ہو تو کیسے بچوں کے خلاف تشدد اور مار پیٹ کو روکا جا سکتا ہے۔ اس معاملے کو لے کر بارہا اقدامات کیے گئے مگر قانون میں تبدیلی کے بغیر اس کا سد باب کہیں ممکن نظر نہیں آتا۔

اس امر میں 27 مارچ 2014 کو وزارت قانون و انسانی حقوق نے SAIEVAC (South Asia Initiative to End Violance Against Children) کے ساتھ مل کر اس بچوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کا ہر فورم پر اور قانون لحاظ سے خاتمے کا اعادہ کیا اور اس کے تحت اسلام آباد میں 5سال سے 16 سال کے بچوں کے خلاف تشدد پر سخت قانون کاروائی کو یقینی بنایا۔ سوال یہ ہے کہ قانون بن جانے کے باوجود کیا اس بچے میں اتنا حوصلہ اور سکت ہوتی ہےکہ وہ خود پر کیے گئے تشدد کی شکایت کر سکے ؟ جس بچے کو تشدد اور سزا کے خوف نے گھیرا ہو وہ کیسے اس کی شکایت یا ازالے کی درخواست کر سکتا ہے ؟ اب ایک نظر ڈالتے ہیں ان عوامل پر جو بچوں پر تشدد کے سد باب میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں

سکول اور اساتذہ کا کردار

بچوں کی بہتر تعلیم اور تربیت کے لیے سکول بہت اہم محرک ہے۔ یہی وہ ادارہ ہے جہاں سے بچے کی تعلیم کا مقدس فریضہ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے یہی وہ ادارہ ہے جہاں سے بچے میں معاشرتی اقدار نشوونما پاتی ہیں۔ سکول کا ماحول دوستانہ اور گھر جیسا ہو اساتذہ پیار کرنے والے اور شفقت سے پیش آنے والے ہوں تو بچوں میں سکول اور تعلیم کے لیے رغبت بڑھتی  ہے ان کے اندر شوق پیدا ہوتا ہے اور اگر اس کے برعکس سکول میں بچوں کو تشدد ذلت و رسوائی ملے تو ان کی شخصیت نکھرنے کے بجائے بگڑتی ہے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے جو کہ بچے کے مستقبل کے لیے زہر کا کام کرتی ہیں۔ سکول بچوں کے مسائل حل کرنے کے بچائے اگر ان کے مسائل میں اضافہ کرنے کا سبب بن رہی ہو تو بچوں کی تعلیم و تربیت کا حال موجودہ حالات سے مختلف نہیں ہوتا۔ اس امر میں اگر سکول میں بچوں کے مسائل کے حل اور انہیں جاننے کے لیے اساتذہ کی کمیٹی بنا دی جائے تو وہ ان مسائل کے سد باب کے لیے بہت کارگر ثابت ہوتی ہے۔

والدین کا کردار

بہت دُکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے والدین بچوں کو سکول بھیج کر یہ سمجھتے ہیں کہ بچہ اب ڈاکٹر یا انجینئر بن کر ان کا سہارہ بنے گا ان کا نام روشن کرے گا۔ یہاں تک کے والدین بچوں کے معاملات میں خاطر خواہ دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ جب بچے کے مسائل و معاملا ت میں والدین دلچسپی نہیں لیتے تو بچے کی شخصیت اور سوچ کیموفلاج ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کا ذہن مثبت سوچ رکھنا چھوڑ دیتا ہے۔ بچوں پر تشدد کے خاتمے کے لیے والدین کو بچوں کے معاملات میں خصوصی دلچسپی لینا ہو گی جب تک آپ کو مسائل کا علم نہیں ہو گا آپ انہیں حل کیسے کریں گے۔ بچوں کے مسائل اور مشکلات کو جانیے اور اس سلسلہ میں ادارہ یا سکول سے اساتذہ سے روابط استوار کیجیے کہ ایک اور نسل نظر انداز نہ ہو جائے۔

محکمہ تعلیم کا کردار

والدین اساتذہ اور سکول  کے ساتھ ساتھ محکمہ تعلیم کا بھی بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت میں اہم کردار ہے۔ محکمہ تعلیم اگر مار نہیں پیار کا سلوگن سکولوں کے باہر لگا کر اور سکولوں میں احکامات جاری کر کے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے سد باب کے لیےاساتذہ کو تشدد کے متبادل مثبت اقدامات کی تربیت اور ٹریننگ دینا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ سکولوں میں تشدد کے خلاف سخت کاروائی کی تنبیہہ بھی محکمہ تعلیم کا فرض ہے نہ صرف اساتذہ کی مثبت تربیت بلکہ اس تربیت پر کس حد تک عمل درآمد ہوتا ہے اسے بھی یقینی بنانا محکمہ تعلیم کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس امر میں بہتر اقدامات کرنے اور مثبت رویے اور ماحول اپنانے والے سکولوں کو سالانہ انعامات دے کر باقی سکولوں کو بھی مثبت رویے اور ماحول اپنانے کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ سکولوں میں سزاؤں اور تشدد کے خلاف محکمہ تعلیم نے بہت کام کیا ہے مگر اس کے مکمل سد باب کے لیے والدین، اساتذہ اور محکمہ تعلیم کو مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

ایک واقعہ آپ سب کے گوش گزار کر کے تحریر کو سمیٹتا ہوں۔  قریب 18 سال پہلے ایک پاکستانی نوجوان ڈاکٹر کو انگلستان میں اچھی نوکری ملی۔ اچھے روزگار اور بہتر ماحول کی سوچ لے کر وہ ڈاکٹر وہاں جا بسا ۔ اپنی بیوی اور ایک بیٹی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا۔ بیٹی کو بھی وہیں سے تعلیم دلوائی۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک ایک دن اس کی بیٹی اپنے ساتھ ایک سکھ نوجوان کو لے کر آئی اور کہا کہ یہ میرا کلاس فیلو ہے اور میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ شش و پنج کا شکار والدین نے اس وقت تو کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا، مگر سکھ نوجوان کے جانے کے بعد بیٹی کو سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی مگر بیٹی کسی طور اپنے فیصلے سے ہٹنے کو تیار نہ تھی۔ ڈاکٹر نے بہت کوشش کی اسلامی مثالیں دیں کہ وہ غیر مذہب ہے اس سے شادی جائز نہیں مگر بیٹی نے ایک نہ سُنی۔ چار و نا چار ڈاکٹر نے اپنی بیٹی کو کمرے میں بند کر دیا۔ 3 روز گزرنے کے بعد وہ سکھ اپنے ساتھ پولیس لے کر ڈاکٹر کے گھر پہنچھ گیا۔ ڈاکٹر نے اس وقت یہ وعدہ کر کے سکھ اور پولیس کو روانہ کیا کہ ہمیں تیاری کا موقع دیں اور ایک ہفتے بعد آکر بیٹی سے شادی کر لیں۔ سخت قوانین اور ان پر عملداری کے پیش نظر وہ سِکھ نوجوان واپس چلا گیا۔ ڈاکٹر نے اس سے اگلے دو روز میں اپنی نوکری چھوڑی محنت اور لگن سے بنایا گھر بیچا اور تیسرے دن اپنے وطن پاکستان پہنچ گیا اور ایئر پورٹ پر اترتے ہیں اپنی بیٹی کو کہا کہ اب دیکھتا ہوں کہ کیسے تم ایک غیر مذہب شخص سے شادی کرتی ہو۔ یہ پاکستان ہے انگلستان نہیں۔

@JawadAsghar4

Saturday, October 1, 2016

آخر ذمہ داری کس کی ہے؟؟




جون 2012 کا گرم مرطوب دن تھا، دور دور تک کسی ہوٹل یا کھانے پینے کی دکان کا نام و نشان نہیں تھا، صبح 7 بجے سے سکولوں کے Baseline Survey کو نکلی ٹیم بھوک پیاس میں کوئی سائباں یا ہوٹل کی تلاش میں تھی۔ مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کے ملحقہ علاقے سناواں سے حنا ربانی کھر کے آبائی علاقے "بستی لسوڑی کھر"  کی خستہ حال سڑک تھی۔ بہت تلاش کے بعد ایک چائے کا ہوٹل نظر آیا، ہمارے ساتھ فیلڈ سٹاف میں دو خواتین اور ڈرائیور سمیت تین مرد تھے۔ دیہی علاقوں خواتین کے پردے کے احترام کی وجہ سےہم نے خواتین کو گآڑی میں ہی بیٹھنے کوکہا اور چائے پینے کی غرض سےہوٹل پر جا بیٹھے۔ 

ہوٹل کیا تھا ایک چھوٹا سا چائے کا کھوکھا تھا جس کے سامنے چارپائیوں پر گاؤں کے بزرگ بیٹھے چائے پی رہے تھے اور ٹیپیکل "پینڈو" سٹائیل میں سڑوووووپ سڑووووپ کی آوازوں کے ساتھ چائے پینے اور سرائیکی میں گفتگو میں مصروف تھے۔ اتنے میں ایک لڑکا جو عمر سے13 یا 14 سال کا لگ رہا تھا اخبار اٹھائے گلی سے نمودار ہوا اور ہمارے پاس بیٹھے بزرگوں کے پاس آ رُکا، او میڈھا پوتر آیا، چل میرا پوتر چاچے حنیف کو اخبار پڑھ کے سُنا" بزرگوں میں بیٹھے ایک بزرگ نے لبی تان لگائی، ان کی اس بات کو سُنتے ہی بچے کے چہرے  کا رنگ ماند پڑ گیا۔  نہ چاہتے ہوئے بھی بچے نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں اُلٹے سیدھے لفظ پڑھنا شروع کر دیے۔ اور درمیان میں ٹھیٹھ سرائیکی کے الفاظ بھی استعمال کرتا رہا۔ اس کی لڑکھڑاتی زبان سُن کر وہ بزرگ چاچا حنیف بولا۔ تیڈھے پوتر کوں تاں پڑھن دا ول ای نئیں آندا پیا، کیہڑی جماعت وچ اے ؟۔ چاچا حنیف کی اس بات پر وہ بزرگ جو بچے کے آنے پر بہت فخر سے اخبار پڑھنے کو کہہ رہا تھا اور شاید اس بچے کا باپ یا دادا تھا نے نہایت سخت الفاظ میں گالی دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے ماسٹر صاحب کا حال ہے۔ موٹی تنخواہ لیتے ہیں اور بچوں کو ککھ بھی نہیں پڑھاتے پانچویں کے بچے کا یہ حال ہے۔ 

آؤ دیکھا نہ تاؤ ان کے ساتھ بیٹھے ایک اور شخص نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور دو چار گالیوں کا اضافہ کرتے ہوئے سکول تعلیم اور اساتذہ کو گالیاں بکنا شروع کردیں۔ بے شک اس معاملے میں استاد قصور وار ہو گا یا نہیں مگر ایک معلم اور استاد کے بیٹے ہونے کی وجہ سے استاد کو گالیاں ملتی دیکھ کر مُجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے اس گفتگو میں کودنے کا فیصلہ کیا ہی تھا بچے کے باپ/دادا نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اے این جی او والے وی ڈرامہ ہن تصویراں چھکیندے اپنا مقصد پورا کریندے نکل ویندے ہن، نہ گورنمنٹ کو خیال آندا ہے نہ انہاں کو شرم آندی"

مجھ سے رہا نہ گیا اور نہایت احترام و عزت کے ساتھ ان بزرگ سے ان کا نام پوچھا انہوں نے اپنا نام حیات محمد بتایا اور قریبی گاؤں میں کھیتی باڑی اور بھانے (بھینسوں کا شوروم) چلانے کا بتایا۔ میں نے ان کے کاروبار اور اچھی صحت کی دعا دیتے ہوئے سب کو رسمی سلام کیا اور ان سب سے سوال پوچھا کہ چاچا جی آپ نے اپنے بیٹے کو سکول کب داخل کروایا تھا اور کس نے سکول داخل کروایا تھا۔ جس کے جواب میں انہوں نے بڑے فخر سے کہا کہ میں آپ داخل کروا کے آیا ہامی۔ میرا ان سے اگلا سوال تھا کہ کب داخل کروایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کچی وچ میں آپ ونج کے اکوں داخل کروا آیاں، سکول ساڈے گھر دے نال ای ہے، استاد ہوراں کو کھانا شانا چا پانی وی پلیندے رہ گئے ہاں پر بال دا حال ڈیکھ گھنو ہِک خبر کائ نی پڑھ سکدا۔ تُساں شہر توں آئے ہی وے تے ایں اُستاد دی رپورٹ محکمے کو کرو چا: میں نے سوال کیا کہ کچی میں داخلہ کروانے کے بعد آپ دوبارہ کب سکول گئے ؟ انہوں نے کہا کہ مُڑ ڈُو (2) واری سکول گیاں کوئی فنکشن ہائی۔ این جی او والے آئے ودھے ہن تے اوہناں سارے گاؤں والیاں کو سڈا ہائی۔ 

میں نے خفگی بھرے انداز میں بزرگوار سے کہا کہ آپ نے 5 سال پہلے بچے کو سکول داخل کروایا اس کے بعد سکول جا کر کبھی پوچھا تک نہیں کہ استاد کیا پڑھا رہا ہے یا ہمارے بچے کو سمجھ بھی آرہی ہےکہ نہیں۔ اور سوال کیا کہ کیا آپ نے کبھی بچے کو سکول سے گھر آنے پر سوال کیا کہ کیا پڑھ کر آئے ہو استاد صحیح پڑھا رہا ہے کہ نہیں تو ان کے پاس کوئی دوسرا جواب نہ تھا۔ 

من حیث القوم ہمارا ایک وطیرہ ہے کہ غلط بات یا کام دوسروں پر ڈال دو۔ ہم دوسروں کے معاملات میں بہترین جج اور اپنی غلطی اور معاملات میں بہترین وکیل بن جاتےہیں۔ اگر آپ کسی دیہی علاقے یا کسی شہری آبادی والے سرکاری سکول کا دورہ کریں تو اساتذہ کے منہ سے بھی کچھ اسی قسم کے الزامات نکلتے سنائی دیں گے جن کا ذکر بابا حیات محمد کر رہا تھا فرق صرف اتنا ہو گا کہ ان کے الزامات کا محور والدین ہوتے ہیں۔ 8 سال سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد اور معیارِ تعلیم کے بہتری پر کام کرنے کے بعد جو کمی مجھے نظر آئی وہ والدین اور سکول و اساتذہ کے درمیانی خلیج ہے۔ 

آپ اپنے بچے کو پرائیویٹ سکول داخل کروائیں اس کے بعد بھول جائیں نہ اس کا فالو اپ کریں تو حالات کچھ بابا حیات کے بیٹے یا پوتے جیسے دکھائی دیں گے۔ والدین بچے کو سکول داخل کروا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ اب اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کو تعلیم دیں۔ اور بڑھتی آبادی کے پیش نظر اور کچھ دیہی علاقوں میں اساتذہ کی کم تعداد بھی ایک وجہ ہے کہ اساتذہ اور بچوں کی مناسب تعداد جو جدید طریقہ ہائے تدریس میں درج کی گئی ہے سے بہت زیادہ ہے۔ جدید طریقہ ہائے تدریس میں ایک استاد زیادہ سے زیادہ 35 سے 40 بچوں کے لیے ضروری ہے۔ مگر دیہی علاقوں کے سکولوں میں ایک استاد کے پاس کم از کم 60 65 بچوں کی تعداد کی کلاس ہوتی ہے۔ 

اساتذہ 5 گھنٹے کے سکول ٹائم میں سلیبس بلیک بورڈ پر چھاپ کر سوچتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کر چکے اور والدین بچوں کو سکول بھیج کر۔ جبکہ دونوں کی ذمہ داری بچے کی تعلیم مکمل ہونے تک نہ کم ہوتی ہے نہ پوری ہوتی ہے۔ سرکاری سکولوں میں ایجوکیشن پالیسی 1972-80 کے تحت 1975 میں ایس ایم سی (سکول مینیجمنٹ کونسل) کے قیام کے باقاعدہ احکامات جاری کیے گئے تھے جس کے بعد تمام پرائمری، ایلیمنٹری اور ہائی سکول بشمول کالجز کے سکول کونسل بنانے کے پابند تھے۔ جس میں چئیرمین سکول کا سربراہ یعنی کے ہیڈ معلم یا پرنسپل ہوتا ہے اور کم از کم ارکان 7 ہوتے ہیں جن میں سے 2 سکول کے اساتذہ اور ایک علاقے کا نمبردار یا بڑا بزرگ اور باقی بچوں کے والدین کو رکھنے کی باقاعدہ سے ہدایات کی گئیں۔ اس پالیسی کے تحت پرائمری کو 30 ہزار روپے، ایلیمنٹری کو 60 ہزار اور ہائی یا ہائر سیکنڈری سکول کو ایک لاکھ کے قریب سالانہ فنڈ سکول کونسل کی مد میں دیا جاتا ہے۔ 

سکول کونسل اس فنڈ باقاعدہ میٹنگز میں سکول کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے استعمال کرنے کی مجاز ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو سکول کونسل اور فنڈ کے بارے میں جانتے ہیں اس لیے اس کا ذکر کرنا ضروری سمجھا۔ فیلڈ ورک کے دوران جو کمی سب سے زیادہ محسوس ہوئی وہ یہ بھی تھی کہ اساتذہ آڈٹ کے خوف سے اس فنڈ کو استعمال ہی نہیں کرتے اور وہ اکاؤنٹ میں پڑا ہی رہ جاتا ہے۔ سکول کونسل کو فعال نہ بنانے کا بڑا نقصان آپ نے اس تحریر کے شروع میں اس بچے کے تعلیمی لیول کی صورت دیکھ لیا ہے ۔ شہر کے پرائیویٹ سکولوں میں Parent Teacher Meeting کارواج ہے اور رزلٹ کے بعد بھی رزلٹ کارڈ پر والدین کے دستخط کہیں نہ کہیں والدین اور اساتذہ کے درمیان حائل خلیج یا دیوار کو توڑ دیتے ہیں اس لیے پرائیویٹ سکولوں کا تعلیمی معیار سب کو سرکاری سکول سے کہیں بہتر نظر آتا ہے۔ جبکہ پرائیویٹ سکول میں اساتذہ کی کم  تنخواہ اور کام کی زیادتی اساتذہ کرام کو صحیح سے ڈیلیور کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جبکہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہیں مناسب اور کام کی زیادتی بھی نہیں ہے۔ 

میں مانتا ہوں کہ دیہی علاقوں میں شرح خواندگی کم ہونے کے باعث والدین بچوں سے تعلیمی سوال و جواب یا پوچھ گچھ کرنے سے گریز کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بچے سے یہ بھی نہ پوچھیں کہ پڑھائی میں دل لگ رہا ہے کہ نہیں یا کوئی مسائل ہیں تو بتاؤ، یہ مسائل ہی جب زبان پر نہیں آتے تو ان کا حل کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ 

سکول کونسل کو فعال بنانے میں پاکستانی فلاحی ادارے "ادارہ تعلیم و آگہی" کا بہت اہم کردار ہے جسے بیلا رضا جمیل جیسی تعلیم اور قوم کا درد رکھنے والی خاتون چلا رہی ہیں۔ +Baela Raza Jamil @ITACEC1 ان کی کاوشیں جنوبی پنجاب سمیت بلوچستان اندرون سندھ اور پختونخواہ میں بہت حد تک سکولوں کی حالت بدلنے میں کار آمد ثابت ہوئیں۔ ان کی رات دن کی محنت اور آگہی مہم سے سکولوں میں سکول کونسل بہت حد تک فعال ہوئیں۔ بیلا رضا جمیل کی بہترین خدمات پر اقوام متحدہ نے اپنے 71ویں اجلاس کے ایجوکیشن سیشن میں انہیں خود دعوت دی کے آکر ایشیا میں تعلیمی صورتحال پر بریفنگ دیں۔ 


سکول کونسل کے بہت سے فوائد ہیں مگر یہاں اس کے ایک فائدے کا ذکر کر کے تحریر کو سمیٹتا ہوں کہ جو سب سے بڑا مسئلہ دیہی سرکاری سکولوں کو درپیش ہے وہ بچوں کی تعداد کے حساب سے اساتذہ کی کم تعداد ہے۔ اور اس مسئلے کو لے کر حکومت کو رگیدا جاتا ہے۔ جبکہ سکول کے پاس اتنے فنڈ اور اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ سکول کونسل کی مشاورت سے اپنے علاقے سے ہی ایک پڑھے لکھے استاد کو وہاں تدریس کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ جس سے بچوں کی تعداد کو اساتذہ میں مساوی تقسیم کر کے علم کی روشنی ہر بچے تک پہنچائی جا سکے۔ کلاس رومز کے لیے گرمیوں کے موسم میں پنکھے خریدے جا سکتے ہیں۔ لڑکیوں کے سکولوں میں چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے بے پردگی ہوتی اور والدین اسی سبب اپنی بچیوں کو سکول بھیجنے سے گُریز کرتے کہ نہ چار دیواری ہے اور نہ ہی لیٹرین۔ 

تعلیمی پراجیکٹس پر کام کرتے ہوئے ہم نے جتنے سکول دیکھے یا سیلیکٹ کیے ان سب میں سے کوئی ایک سکول بھی نہ سکول کونسل کو فعال کرتا تھا اور نہ ہی سکول کونسل فنڈ کو آڈٹ کے خوف سے استعمال کرتا تھا۔ سکول میں بجلی ہے مگر پنکھے نہیں تو سکول کونسل فنڈ سے خریدنے کی اجازت بھی ہے۔ حکومت پنجاب نے سکولوں میں بُنیادی ضروریات فراہم کرنے کے لیے انتھک محنت کی اور بہت حد تک اس میں کامیابی ملی بھی مگر بُنیادی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ آگہی مہم کی ضرورت ہے الف اعلان کی رپورٹ کے مطابق ابھی بھی لاکھوں کی تعداد میں بچے سکولوں سے باہر ہیں ان کے سکول داخلہ کے لیے جہاں حکومت کو کوششیں کرنی ہیں وہیں اساتذہ کو بھی آگے آنا ہو گا اور اپنےسکول سے ملحق علاقوں میں داخلہ مہم چلانی چاہیے اور اہل علاقہ کو بھی اس مہم میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ جب تک ہم تمام ذمہ داری حکومت اور اساتذہ پر ڈالتے رہیں گے تعلیی صورتحال کبھی بہتر نہ ہوگی۔

غرض یہ کہ ہمارے لیے مسائل کو مل جُل کر حل کرنے سے زیادہ آسان دوسروں پر الزام دھرنا ہے اور وہی ہم نے اپنا وطیرہ اپنایا ہوا ہے، سرکاری سکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے والے کسی بھی والدین کو لے کر ان سے سوال کر لیں وہ آپ کو سکول اساتذہ اور محکمہ تعلیم کو مورد الزام ٹھہراتے نظر آئیں گے۔  اور اس سب کے بعد جو سوال آپ کے ذہن میں اٹھے گا وہ ہو گا "آخر ذمہ داری کس کی ہے ؟

@JawadAsghar4

Wednesday, September 28, 2016

کس سے منصفی چاہیں ؟؟


یوں تو پاکستان کے لیے پچھلے 20 سال سے ہر سال ہی کوئی نہ کوئی کرخت اور تکلیف دہ یادوں کے نقش چھوڑ جاتا ہے۔ ان ہی دلخراش واقعات میں سے ایک 2010 کا سیلاب اور مون سون کا موسم بھی تھا۔ جولائی میں شروع ہونے والے بارشوں کے سلسلے نے دیہی علاقوں میں بہت نقصانات کے تحفے دیے ان سب کے ساتھ ساتھ جو سب سے دلخراش اور تکلیف دہ بات تھی وہ تھی دریائے چناب کے کنارے بسنے والی آبادیوں کا سندھ کے پانی سے تباہ ہونا تھا۔  کہتے ہیں کہ سیلاب آتا ہے تو دریاؤں کی زرخیز مٹی ساتھ لاتا ہے مگر مٹی گارے کے بنے مسکنوں، انسانوں اور مال مویشیوں کے لیے بہت بڑے نقصان کا باعث بھی بنتا ہے۔ 

ایسے ہی 2010 کے سیلاب نے 2000 کے قریب انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیا۔ براہ راست 20 لاکھ سے زائد لوگ سیلاب سے   متاثر ہوئے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 4.5 کھرب روپے کا نقصان ہوا جس میں قریب 50 ارب کا مالی نقصان گندم کی فصلوں کے تباہ ہونے کی صورت ہوا۔ لوگ اپنے مال مویشی اور گھر بار چھوڑ کر کھُلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور تھے سیلاب نے تو انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا تھا مگر بے سر و سامانی کی حالت میں سڑک پر ڈیرہ لگائے لوگوں کے سر پر بارشوں کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ 
پاک فوج نے اپنا ریلیف آپریشن شروع کر دیا تھا اور سیلاب میں پھسے لوگوں کو نکالنے کا عمل جاری تھا۔ 100 سے زائد مُلکی اور غیر مُلکی تنظیمیں بھی ریلیف کا کام کر رہی تھیں اور پنجاب حکومت بھی ریلیف ورک میں پیش پیش تھی۔ ان حالات کے پیش نظر شہری علاقوں کی تاجر یونینز نوکری پیشہ افراد بھی دل کھول کر سیلاب زدگان کی مدد میں مشغول تھے، شہروں میں جگہ جگہ ریلیف کیمپ لگائے گئے تھے، سرکاری سکولوں میں سیلاب زدہ لوگوں کو پناہ دینے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ 

اسی سلسلہ میں چند صاحب حیثیت لوگوں نے کچھ رقم اکٹھا کی اور اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب زدہ علاقے میں امداد پہنچانے کی ٹھانی۔ تمام لوگوں کی متفقہ رائے سے یہ طے پایا کہ شہر سے کھانا پکوا کر سیلاب زدہ علاقوں میں غزا پہنچائی جائے کیونکہ اپنی جان بچا کر بھاگنے والے اپنے ساتھ چولہا یا اناج نہیں لاسکے تھے۔ طے پانے کے بعد زور و شور سے کھانے کی دیگیں پکوائی گئیں۔ اور گاڑی بُک کروا کر پہلے سب سے قریبی علاقے کا رخ کرنے کی ٹھانی۔ 
خاکسار ان دنوں ایک فلاحی ادارے میں کام کرتا تھا اور جنوبی پنجاب کے چپے چپے سے واقف ہو چکا تھا تو کھانا تقسی کرنے کی زمہ داری اپنے سر لی اور کھانا لوڈ کروا کر مظفر گڑھ کے ملحقہ علاقے محمود کوٹ کا رخ کیا کہ وہاں سے ہوتے غازی گھاٹ تک جائیں گے۔ راہ میں جو ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا کہ مظفر گڑھ کے گداگر فقیر چور لٹیرے سب سیلاب زدگان بن کر سیلاب زدہ علاقے کو جانے والی سڑکوں پر موجود تھے اور امداد لے کر آنے والی ہر گاڑی پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے تہیہ کیا کہ شناختی کارڈ دیکھ کر یا شناخت کر کے صرف سیلاب زدگان کی ہی امداد کی جائے اور ایسے نوسربازون پر امداد ٖضائع نہ کی جائے۔ 

جیسے تیسے ہم محمود کوٹ پہنچے ایک ایلیمنٹری سکول میں 11 خاندان آ کر ٹھہرے ہوئے تھے ہم نے امداد وہیں تقسیم کرنے کی ٹھانی اور گاڑی سکول کے اندر لگوا کر وہاں موجود ایک باریش بزرگ سے درخواست کی کہ یہاں جتنے کنبے رہائش پزیر یا پناہ لیے ہوئے ہیں ان کے سربراہان کو اکٹھا کر لیں ہم کنبے کے افراد کے حساب سے لوگوں میں کھانا تقسیم کریں گے۔ ہمارے سوال کے جواب میں جو کچھ اس باریش بزرگ نے روداد بیان کی وہ سُن کر دل بہت بوجھل اور آنکھیں اشکبار ہو گئی۔ بزرگ نے کھانا لینے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ کرخت لہجے میں ہمیں وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا۔ ہمارے ساتھ ایک نوجوان وہاں کھیلتے بچوں کی تصویریں بنانے میں مشغول تھا ہم نے اسے منع کیا کہ شاید اس وجہ سےبزرگ نالاں ہیں۔ 

ہم نے بہت منت سماجت کی کہ ہم یہ کھانا بڑی دور سے پکوا کر آپ لوگوں کے لیے ہی لائے ہیں مگر بزرگ کسی طور بھی تیار نہ تھے، ہم نے پاس موجود کچھ اور افراد کو قائل کرنا چاہا مگر وہ سب بھی بزرگ کے موقف پر قائم تھے۔ بڑی مشکل سے ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ جس دن لوگ لُٹے پُٹے سڑک پر آبیٹھے تھے اسی شام مظفر گڑھ کے ایک نامور شخص نے ان کے لیے کھانے کا انتظام کیا تھا اور اپنے نوکروں کے ہاتھوں دیگیں بھجوائی تھیں اور اس کھانے میں نشہ آور چیز ملا کرپہلے سے لُٹے ہوئے خاندانوں کا بچا ہوا اناج اور لڑکیاں اغوا کر کے لے گئے۔  ہمیں یہ کھانا نہیں چاہیے ہمیں خشک  خوراک لادیں۔ یہ سُن کر ہمارے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آگیا کہ ہم پر اللہ کا عزاب کیوںکر نازل نہ ہو جب ہمارے معاشرے میں ایسے ناسور پل رہے ہیں۔ 

غرض یہ کہ بوجھل قدموں اور ماؤف ہوتے اعصاب لے کر ہم نے وہ تیار کھانا وہی سڑکوں پر موجود جعلی سیلاب زدگان میں تقسیم کیا اور اپنے گھر کی راہ لی کہ جو باقی امداد اکٹھی ہوئی اس کا خشک راشن بنا کر لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔ میرے لیے اس دن وہ 45 کلومیٹر کا سفر پوری زندگی کی مسافت بن چکا تھا۔ یہی خیال زہن میں دھماکوں کی طرح پھٹ رہا تھا کہ بار بار سیلاب سے برباد ہونے کے باوجود ہم نے کیا خاطر خواہ انتظامات کیے، اگر سیلاب سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کر سکے تو سیلاب سے تباہ ہوئے لوگوں کے کی فلاح کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔ 

بڑے فلاحی اداروں سے آنے والی امداد بھی پہلے علاقہ کے ایم پی ایز ایم این ایز کے ڈیروں پر جمع ہوتی تھی اور پھر ان کے دست مبارک سے اپنے منظور نظر لوگوں تک پہنچتی تھی ضرورت مند لوگ ان کے ڈیرے کے باہر صبح سے لائن میں لگ کر شام ہونے کے بعد واپس اپنے بچوں کے پاس خالی ہاتھ ہی لوٹتے تھے۔ یہ ان لوگوں کی داستان بیان کی جو الیکشن سے پہلے ان ہی لوگوں کے دروازوں پر بھیک منگوں کی طرح ووٹ مانگتے پھرتے ہیں مگر مشکل آنے پر کوئی ان اپنے ہی ووٹرز کا حال بھی نہیں پوچھتا۔ 
@JawadAsghar4

Monday, September 26, 2016

بھوک ننگ اور ایٹمی جنگ

 برصغیر پاک و ہند ٹیلنٹ، زراعت و سیاحت کے لحاظ سے مالا مال خطہ ہے۔ جسے انگلستان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے جال میں پھانس کر اپنا غلام بنائے رکھا اور ایک عرصہ حکومت کرنے کے بعد جب یہ خطہ یہاں کے رہنے والوں کے لیے آزاد کیا تو جاتے جاتے ایک ایسا ایشو چھوڑ گیا کہ جسے لے کر اس خطے میں ہمیشہ مسائل رہیں اور ترقی نہ ہو سکے۔ 

کسی ایک بھارتی وزیر اعظم یا حکمران کا دور حکومت اٹھا لیں اسکی دکانداری چلتی ہی کشمیر اور پاکستان مخالف ایجنڈے پر رہی ہے۔ اندرا گاندھی ہو یا راجیو گاندھی، واجپائی ہو یا مودی سب کے پاس اپنی سیاست چمکانے کو ایک ہی ایشو رہا کشمیر اور پاکستان کے خلاف جنگ و نفرت۔ جب جب بھارتی حکمران اپنے عوامی فلاحی ایجنڈے میں فیل ہوئے انہیں پاکستان کے خلاف جنگ کا لالی پاپ ہی ملا جو وہ اپنی عوام کو دے کر اپنی خفگی مٹاتے رہے۔ 

نریندر مودی کو گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے حوالے سے پوری دُنیا اچھے سے جانتی ہے وہ چاہے لاکھ میٹھی زبان استعمال کریں اسے کے پیچھے موجود دوغلا پن اور شرپسندی کسی سے ڈھکی چھُپی نہیں ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی کی الیکشن میں کامیابی کے بعد سے نریندر مودی کا وزیر اعظم بنایا جانا صاف نظر آرہا تھا اسی لیے بھارتی حلقوں میں بھی ایک تشویش کی لہر تھی اور بارہا ان کی مخالفت کی جاتی رہی۔ باقی تمام سیاستدانوں کی طرح مودی نے بھی عوام کو بہت سبز باغ دکھائے اور عوام کی کایا پلٹنے کے عہد و پیماں کیے گئے۔ 

پاکستان جو کہ دہشت گردی کے خلاف پرائی جنگ میں کود کر اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہا ہے کو چین کی طرف سے ایک خوشخبری ملتی ہے کہ گوادر کو فنکشنل کیا جائے اور ایک راہداری تعمیر کی جائے جس سے خطے میں اقتصادی اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ اور تقویت ملے مگر اس کے لیے پاکستان میں موجود دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ناسور کا خاتمہ تھا کیوں کہ امن قائم کیے بغیر کوئی بھی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہ تھا۔  اس امر میں سول حکومت اور افواج پاکستان نے ایک جامعہ حکمت عملی تیار کی۔ 40 ہزار شہریوں اور سکیوریٹی اہلکاروں کی قربانی کے باوجود دہشت گردی کا ناسور کسی طور تھمنے کا نام نہیں لے رہاتھا کہ ایسے میں وہ دلخراش واقعہ پیش آیا کہ جس نے 11 ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر حملے سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور خون آشام اثرات چھوڑے۔ جس کے بعد دہشت گردی کے اس ناسور سے چھٹکارا پانے کو سول اور فوجی قیادت نے کمر باندھ لی اور ضرب عضب باقاعدہ سے شروع کیا گیا۔ 

ضرب عضب میں شمالی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں وسائل اور مزید قربانیاں دینی پڑیں مگر پاکستان میں پائیدار امن کے لیے ہمارے فوجی جوانوں نے دہشت گردوں کا ڈٹ کر مُقابلہ کیا اور انہیں افغانستان کی طرف دھکیل دیا جہاں کئی دہائیوں سے طالبان اور افغان حکومت کی آپسی جنگ جاری ہے۔ غرض یہ کہ پاک چین اقتصادی راہداری پر کام شروع ہوا۔ بھارت اور متحدہ عرب امارات کو یہ بات کسی طور گوارا نہ تھی کہ جس معیشت اور کاروبار پر ان کی اجارہ داری ہے اس میں کوئی حصہ دار بنے۔ 

بےشک اقتصادی راہداری کی تکمیل سے سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہو گا مگر اس کا بہت حد تک فائدہ اس خطے کو بھی ہونا ہے جس خطے میں یہ بنائی جا رہی ہے۔ بے روزگاری بھوک افلاس غرض بنیادی ضروریات کے لیے ترستے ایک ملک کے لیے ایسی راہداری بہت اہمیت کی حامل ہے اور اسی وجہ سے پہلی بار سول حکومت اور فوجی قیادت اس پر ایک ہی رائے رکھتی پائی گئیں۔ 

 جیسے ہی اقتصادی راہداری پر کام شروع ہوا تو اس سے حسد رکھنے والے ممالک نے پراپگینڈا شروع کر دیا کبھی اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی تو کبھی بلوچستان میں دراندازی دہشت گردی اور زیارت حملے جیسے واقعات پیش آنے لگے۔ بھارت پچھلے بیس سال سے ایک ہی کوشش میں مصروف عمل ہے کہ پاکستان کو خطے میں کیا پوری دُنیامیں اکیلا کر دیا جائے مگریہ نہیں جانتا کہ پاکستان کو 3 سرحدیں لگتی ہیں کوئی ایک سرحد نہیں۔ اور خود اقرار بھی کرتا ہے کہ جب تک چین غیرجانبدار نہیں ہو جاتاپاکستان کو اکیلا نہیں کیا جاسکتا۔ 

اقتصادی راہداری کے ہی بغض میں بھارت نے افغانستان اور ایران کو ساتھ ملاتے ہوئے ایران میں چاہ بہار پورٹ کی تعمیر و ترقی کا عندیہ دیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ چاہ بہار پورٹ کا گوادر سے کوئی مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس شوشے کا بھی کوئی خاص اثر اقتصادی راہداری پر نہ پڑ سکا بلوچستان میں بھی پاک افواج کے کامبنگ آپریشن سے بھارت کے عزائم کلبھوشن یادیو کی صورت میں دُنیا کے سامنے آگئے۔ 

غرض کے بیرونی دراندازی سے لے کر پاکستان کے اندرونی سیاسی ماحول کو گرمانے میں بھی بھارت نے کوئی کسر نہ چھوڑی کہ کسی طرح اقتصادی راہداری کا کام رک جائے جیسے 2004 میں اس کی فیزیبیلیٹی اور پلاننگ کے دو سال بعد 2006 میں اس پر کام ٹھپ ہو گیا تھا۔ بھارت نے اپنے پُرانے حربے کو آزمانے کی کوشش کی اور کشمیر میں تشدد اور ظلم کی نئی کہانی شروع کر دی۔ اور آزادی کے لیے نبرد آزما بُرہان وانی کا بیہیمانہ قتل کیا گیا جس سے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو ایک نئی تقویت ملی جو در اصل بھارت نے ہی جان بوجھ کر پیدا کی اور ہمیشہ کی طرح الزام پاکستان پر عائد کیا کہ پاکستان یہ سب کروا رہا ہے۔

بھارت کی شاطرانہ چال کارگر ہوئی پاکستانی شہریوں اور حکمرانوں کے دل میں کشمیر کے لیے موجود ازلی محبت جاگی اور وزیر اعظم پاکستان نے اس ایشو کو اقوام عالم کے سامنے اٹھانے کا عندیہ دے دیا جو کہ بھارت بہت حد تک چاہتا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان نے بُرد باری اور تحمل مزاجی سے کشمیر میں ہونے والے مظالم پر اقوام عالم کی توجہ دلائی اور ایک بار پھر دوستی اور مذاکرات کے دروازے کا راستہ دکھایا اور ایک لفظ بھی جنگ سے متعلق نہ کہا ہاں بھارتی جارحیت اور جنگی جنون کا دفاع کرنے اور منہ توڑ جواب دینے کی بات ضرور کی۔ 

وزیر اعظم کی تقریر جس کا بھارت منتظر تھا نے پہلے سے ہی ایک ڈرامہ تیار کیا ہوا تھا کہ اقوام عالم کے سامنے اپنی خفگی مٹانے کو اور مظلوم بننے کو اپنی ہی فوجی بیرک پر حملہ کرواکر اپنے فوجی شہید کروائے اور ہمیشہ کی طرح واقعہ کے ایک گھنٹے کے اندر اندر الزام پاکستان پر عائد کر دیا جب کہ ابھی علاقہ حملہ آوروں سے کلئیر بھی نہیں کروایا گیا تھا۔ 
وزیر اعظم پاکستان نے اقتصادی راہداری کو زہن میں رکھتےہوئے بہت متوازن تقریر کی اور کشمیر سمیت خطے میں بھارت کی در اندازای اور مجرمانہ حرکات کا ذکر بھی کیا مگر جنگ کی بات نہیں کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے جنگ کا عندیہ دینے یا بھارت سے مقابلے بازی پر پاکستان میں اقتصادی راہداری کا کام کھٹائی میں پڑ سکتا ہے اور جو سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کی بات کر رہے ہیں وہ کبھی بھی اپنا پیسہ ایسی جگہ لگانے نوکہ تیار نہیں ہوں گے جہاں جنگ یا تناؤ کا ماحول ہو۔ 

وزیر اعظم کی تقریر کو لے کر جہاں بھارت میں تکلیف پیدا ہوئی وہیں پاکستان کے اندر موجود کئی عناصر (اینکرز، لنڈے کے دانشور و تجزیہ نگاروں) نے یہ واویلہ شروع کر دیا کہ بھارت اگر پاکستان کا کوئی جاسوس بھارت سے گرفتار کر لیتا تو وہ اسے پنجرے میں بند کر کے اپنے ساتھ اقوام متحدہ لاتا اور اپنی تقریر میں پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتا۔ تو جناب بھارت نے پہلے کب ایسا نہیں کیا بھارت تو پچھلے بیس سال سے اسی حکمت عملی پر کار فرما ہے کہ پاکستان کو دُںیا سے الگ کیا جاسکے اور پاکستان اکیلا رہ جائے۔ موجودہ حالات میں وزیر اعظم پاکستان کو اس ہی رویے کا اظہار کرنا چاہیے تھا کہ ہم خطے میں جنگ نہیں امن چاہتے ہین۔ کہ پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کمر دوہری ہو چکی ہے معاشی  اعتبار سے بہت کمزور ہوچکے ہیں اور مزید جنگ کے خواہاں نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ میں مائیک کے آگے کھڑے ہو کر بھارت پر الزام تراشی کرنا اور جنگی عزائم کا منہ توڑ جواب دینا مشکل نہیں مگر اس کے بعد سرمایہ کاروں کے دل میں پیدا ہونے والے شکوک یقین میں بدل جانا ہمارے لیے معنی خیز ہے۔ 

نریندر مودی بہت حد تک اپنے عزائم اور پلان میں کامیاب ہے کہ وہ جو ایجنڈا لے کر الیکشن میں آئے تھے اس پر عمل نہ کر پانے کی وجہ سے اب یہ پرانا ایٹمی جنگ کا ٹوٹکہ استعمال کر کے عوام کی نظر میں ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں۔ کیونکہ جنگ کی پالیسی استعمال کرتے ہوئے ایک امریکی صدر اپنے ٹینیور کے دو سال نکال گیا اور اسی جنگ کو جاری رکھ کر موجودہ صدر باراک اوباما بھی دو ٹینیور نکال گیا ہے۔ اور اسی جنگی منترے پر نریندر مودی کارفرما ہیں اور بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ غربت اور افلاس کا جو حال اس وقت بھارت میں اس کے ہوتے کبھی بھی ایٹمی جنگ نہیں کی جاسکتی ۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ بات حرف عام ہوئی کہ 60 فیصد بھارتی عوام کے پاس بیت الخلا کی سہولت نہیں اور اس وجہ سے ہائجینک مسائل بڑھ رہے ہیں۔

میری پاکستانی میڈیا پرسنلیٹیز سے التماس ہے کہ وہ بھارتی جنگی جنون کے جواب میں پاکستانی حکمرانوں یا حکومت کی خاموشی یا اطمینان کو غلط رنگ دینے کے بجائے پاکستان کی حالت پر غور و فکر کریں اور بتائیں کہ کیا پاکستان جہاں آج بھی بچے اور عوام بنیادی ضروریات سے کوسوں دور ہیں ایٹمی جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے ؟ گو کہ پاکستانی افواج بری ہو بحری یا ہوائی ہر طور تیار اور مستعد ہیں کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں مگر کیا ہم اندرونی جنگ کے ساتھ ساتھ بھارت سے جنگ کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں ؟ کیا اس وقت جب ہم معیشت کو بحال کرنے چلے ہیں اس وقت ہم بھارت کو للکار کر اسی کی ٹون میں جواب دے کر معیشت کو بحال کر پائیں گے یا سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کر پائیں گے ؟ یا ایٹمی جنگ ہی پاک بھارت مسائل کا حل ہے کہ جس کے بعد صدیوں تک اس کے تابکاری اثرات نہیں جاتے۔ اگر کوئی نہیں جاتا تو ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں آج بھی پیدا ہونے والے کئی بچوں کو دیکھ لے جو اس وقت کے تابکاری اثرات کی وجہ سے آج تک بغیر بالوں کے پیدا ہوتے ہیں ؟؟ کیا جہاں بھوک ننگ کا راج ہو وہاں ایٹمی جنگ کار آمد ہے ؟؟

والسلام 


Sunday, September 25, 2016

تعلیم ہے مگر شعور کہاں ؟


ستمبر 2010 کی ایک شام تمام ممالک کے سربراہان یا نمائندے ایک جگہ موجود تھے، طے پا رہا تھا کہ سب اپنے اپنے ملک میں انتہائی غربت، شرح خواندگی، خواتین کو برابری کے حقوق، بچوں کی شرح اموات میں کمی، زچگی میں بہتری، ایڈز ملیریا، اور دوسری بیماریوں کے خلاف موثر اقدامات، بہتر ماحولیات اور ترقی کے لیے باہمی تعلقات کی بہتر بنایا جائے گا۔ ان سب میں تعلیم کے مسائل کو زیادہ اجاگر کیا جا رہا تھا اور یادداشت تیار کی جا رہی تھی جس پر تمام ممالک نے اپنے دستخط کر کے اس کی بھرپور حمایت اور اس پر عمل درآمد کا پیغام دینا تھا کہ 2015 تک ہم یہ تمام اہداف حاصل کر لیں گے۔ اس وقت موجود تمام 189 ممالک (جو اب 193 ہیں) نے اس کی تائید کی ہمراہ 22 بین الاقوامی تنظیموں کے۔  

چند ایک ہی جانتے ہیں کہ اس دستاویز پر دو ممالک نے دستخط نہیں کیے تھے ایک امریکہ جس کا جواز تھا کہ وہ پہلے ہی 100 فیصد شرح خواندگی کا حدف حاصل کر چکے ہیں اور ایتھوپیا جس کا جواز تھا کہ ہمارے ہاں غربت و افلاس اتنی کہ ہم شرح خواندگی 2015 تک سو فیصد نہیں کر سکتے۔  اس دستاویز پر دستخط کرنے والا سب سے پہلا پاکستانی نمائندہ ہی تھا۔  

آج ستمبر 2015 کو گُزرے پورا ایک سال گُزر گیا ایک سوال خود سے کیجیے کیا ہم نے سو فیصد شرح خواندگی کے ہدف کو حاصل کر لیا ؟ آپ کا ضمیر جاگ رہا ہوا تو جواب نفی میں ہوگا۔ اوپر دیے گئے اقوام متحدہ کے گلوبل گولز والے سمٹ کے بعد پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا ماسوائے تعلیمی بہتری پر کام کرنے والی ملکی اور  غیر ملکی تنظیموں کے جن کے اپنے اور بھی بہت سے جھمیلے اور اہداف ہوتے ہیں ۔ 

سال 2010 پیپلز پارٹی کا دور تھا، پاکستان میں سیلاب اپنے پیچھے تباہی چھوڑتا ہوا سمندر میں جا گرا تھا، حکومت کے پاس خاطر خواہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر پاک فوج نے ریلیف ورک شروع کر دیا تھا اور بہت سے فلاحی ادارے بھی میدان میں اتر چُکے تھے۔ ایسے ہی ایک ادارے نے لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کا بیڑہ اٹھایا اور سیلاب زدہ علاقوں میں لڑکیوں کے سکولوں کی تعمیر اور بنیادی سہولیات کو یقینی بنایا جائے تاکہ بچیاں تعلیم سے محروم نہ رہیں۔ اس امر میں ضلع
مظفر گڑھ کے نواحی علاقوں کے سیلاب زدہ سکول منتخب کیے گئے اور ان کی تعمیرات اور تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کا کام شروع کر دیا گیا۔


جنوبی پنجاب میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 103 غیر مُلکی اور مُلکی فلاحی ادارے کام کر رہے تھے۔ جن میں سے کئی سکول کے انفراسٹرکچر پر کئی سکول میں تعلیمی مواد و کُتب فراہم کرنے میں مصروف عمل تھے، کئی ادارے سیلاب زدہ علاقوں میں کنٹینر نما گھر تقسیم کر رہے تھے، کئی کیمپ اور خشک خوراک پہنچا رہے تھے۔

مظفر گڑھ کے علاقے شاہ جمال کے نواحی علاقے عثمان کوریہ کا گرلز ایلیمنٹری سکول ہمارا انتخاب تھا کہ وہاں واشروم خستہ حال تھے چار دیواری کہیں تھی کہیں زمین بوس تھی۔ اس سکول کے سروے کے لیے جب ہم مظفر گڑھ پہنچے تو شاہ جمال سے گُزرتے ہوئے ہمیں ایک سکول کے باہر بچیوں اور والدین کی کثیر تعداد دکھائی دی۔ بڑی تعداد میں طالبات اور والدین کو جمع دیکھ کر تجسس ہُوا کہ آج شاید اس سکول میں کوئی فنکشن ہے یا کوئی ادارہ یہاں کام کر رہا ہے۔

سکول کے نزدیک پہنچنے پر معلوم پڑا کہ یہ علاقہ مکھن والا کہلاتا ہےا ور سکول کا نام گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول مکھن والا ہے، جنوبی پنجاب میں پرائمری سکول میں 2 اساتذہ اور قریب 150 طالبات کی تعداد ایوریج تعداد ہوتی ہے۔ مگر اس دن سکول کے اندر 300 کے قریب طالبات تھیں اور باہر بھی 100 کے قریب والدین اور طالبات کھڑے تھے۔ سکول میں پہنچنے سے پہلے ہمیں ایک ادھیڑعمر خاتون نے روکا اور کہا کہ بیٹا میری بیٹی کو سکول میں داخلہ نہیں دیا جا رہا ہے خدا کا واسطہ ہے میری بیٹی کو سکول میں داخل کروا دیں۔

حیرت اس بات پر ہوئی کہ ہم تو لوگوں کو راغب کرتے پھر رہے تھے کہ بچیوں کو تعلیم کے لیے سکول لازمی بھیجا کریں مگر یہاں ایک ماں اپنی بیٹی کو سکول داخل کروانے کے لیے بضد ہے مگر داخلہ نہیں ہورہا۔ رش کی وجہ سے ہمیں اندر جانے کاراستہ نہیں مل رہا تھا۔ اتنی دیر میں اس ادھیڑ عمر خاتون کو ایک اور خاتون ملنے آئیں اور وہ باتوں میں مشغول ہو گئیں۔ میں نے اپنے پاس موجود تعلیم جانچنےکا ٹُول نکالا اور لڑکی سے سوال پوچھنا چاہا۔ مگر اس نے جواب نہ دیا تو میں نے ٹول واپس بیگ میں رکھ کر دوستانہ ماحول میں اس سے اس کا نام پوچھا، لڑکی نے جھجکتے ہوئے سعدیہ نام بتایا، میں نے پوچھا کہ پہلے کہاں تک پڑھا ہے یا پہلی بار سکول داخل ہونا ہے تو اس کی اگلی بات سُن کر میں حیران ہو گیا۔ لڑکی نے کہا کہ وہ پچھلے سال اسی سکول سے پانچویں جماعت پاس کرچکی ہے مگر چونکہ اس سکول میں ایک این جی او داخل ہونے والی لڑکیون یا والدین کو ڈھائ سے تین کلو کُکنگ آئل دیتی ہے تو اس کی والدہ اسے دوبارہ اسی سکول میں تیسری جماعت میں داخل کروانے پر بضد ہے۔ میں نے اتنا سُن کر بیگ سے لرننگ ٹول نکالا اور اس سے کہا کہ کیا وہ پڑھ سکتی ہے تو اس لڑکی نے انگلش کے فقرے اور سٹوری کا ایک پیرا گراف فر فر پڑھ لیا۔

اتنی دیر میں ادھیڑ عمر خاتون باتوں سے فارغ ہو کر ہماری طرف متوجہ ہوئی اور پھر سے ضد کرنے لگی کی اس کی بیٹی کو سکول میں داخلہ دلوا دیں۔ میں نے جواب دیا کہ آپ کی بیٹی تو پانچویں پاس کر چکی ہے تو دوبارہ اسے تیسری میں کیوں داخل کروانا چاہتی ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ اس لڑکی کے سکول داخلے کی وجہ سے تیل ملتا ہے اور ہم غریب مزدور لوگ ہیں سیلاب سے گھر تباہ ہو گیا تو ایک ہی ذریعہ ہے کہ سکول سے امداد مل جاتی ہے۔

اس بچی کا داخلہ تو ہم نہ کروا سکے کیونکہ وہ اسی سکول میں پہلے داخل رہ چکی ہے مگر ایک سوچ جو دماغ میں اٹک گئی کہ اتنے سکول اور تعلیم کے فروغ کے لیے ادارے کام کر رہے ہیں سکول بھی موجود ہیں اساتذہ بھی مگر تعلیم کی اہمیت جاننے کے لیے شعور کہاں ہے ؟ سکولوں میں ایسی مراعات کہ کہیں کھانا مل رہا ہے کہیں تیل کہیں بسکٹ دیے جارہے تو ایسے سکول میں طالبات تعلیم کیا حاصل کریں گی جہاں ان کا داخلہ ہی اس سوچ میں کروایا گیا کہ کچھ ملے گا۔ ایسی ہی سوچ ہمیں ان علاقوں میں تعلیم کی ترغیب دیتے ہوئے ملی کہ آپ کی این جی او دے گی کیا ؟ ہمارا جواب ہوتا تھا کہ ہم آپ کی بچی کو تعلیم دیں گے شعور دیں گے اور کم و بیش ہر جگہ سے یہی جواب ملا کہ فلاں این جی او تو بچے داخل کروانے پر خشک خوراک دے رہی، یونیفارم دے رہی یا ککنگ آئل دے رہی۔

اس سارے واقعہ کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ اتنے ادارے اتنے سکول موجود ہیں تعلیم نظر آرہی ہے مگر شعور کہاں ہے ؟؟؟ کیا تعلیم دے کر ہماری ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے ؟ کیا اس تعلیم کے ساتھ تعلیم کی اہمیت یا افادیت کا شعور بھی لوگوں تک پہنچایا جا رہا ہے کہ نہیں۔۔۔۔   

Thursday, September 22, 2016

اکیسویں صدی اور حوا کی بیٹی



یہ کہانی ہے مظفر گڑھ کے نواحی گاؤں گلاب والا کی ایک بہت ہنر مند اور ذہین لڑکی فاطمہ کی جو گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول گلاب والا میں جماعت چہارم کی طالبہ تھی۔ ادارہ تعلیم و آگہی کے توسط اور دبئی کیئرز کی فنڈنگ سے سکول میں تعمیرات کا کام کروایا گیا تھا اور تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے خاطر خواہ انتظامات بھی کیے گئے تھے۔ اسی پراجیکٹ کے تحت سکول کی بچیوں میں ڈرائنگ اور تقاریر وغیرہ کا پروگرام رکھا گیا تھا۔ ہم حسب معمول وقت سے پہلے سکول پہنچے صفائی وغیرہ کا انتظام دیکھا اور جن بچوں کو پچھلے دنوں میں اس مقابلے کے لیے تیار کیا انہیں اکٹھا کرنا
شروع کر دیا تاکہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے ریہرسل کر لی جائے۔ سب بچے موجود تھے مگر سب سے زہین بچی جو پڑھائی اور ایسی غیرنصابی سرگرمیوں میں بہت پیش پش رہنے والی سکول میں موجود نہ تھی۔ پریشانی ہوئی تو اس بچی کی ہم جماعت بچیوں سے دریافت کیا کہ وہ بچی کیوں نہیں آئی۔ جواب ملا کہ فاطمہ کے گھر بہن پیدا ہوئی ہے اس لیے وہ نہیں آئی، خاکسار اللہ کی رحمت (بیٹیوں) کے لیے دل میں خاص جگہ رکھتا ہے تو یہ خبر سُنتے ہی اس کے گھر جانے کا سوچا کیونکہ پروگرام شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ سکول سے ایک کلومیٹر دور آبادی میں فاطمہ کا گھر تھا۔ اسی پراجیکٹ کے تحت سکول سے ملحقہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خاطر خواہ سوشل موبلائزیشن بھی کی گئی تھی کہ لوگ لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ دیں اور سکول بھیجیں تو علاقہ میرے لیے نیا نہیں تھا۔ 

فاطمہ کے گھر کے دروازے پر دستک دی تو کچھ دیر بعد فاطمہ کی والدہ جس کے سر پر پٹی بندھی تھی اور ماتھے پر پایوڈین کے نشان بتا رہے تھے کہ چوٹ زیادہ لگی ہے نے دروازہ کھول اور مجھے دیکھتے ہی دوپٹہ ٹھیک کیا اور دروازے کی اوٹ میں ہو کر کہنے لگی " میڈا بھرا اج فاطمہ سکول نہ آسی گھر وچ کم اے" میں نے درخواست کی کہ پچھلے ایک ماہ سے ہم بچی کو تیاری کروا رہے ہیں آج پروگرام ہے یہاں سے انعام پانے والے بچے لاھور جائیں گے چلڈرن کملپلیکس میں بڑے مقابلے میں حصہ لینے۔ مگر انہوں نے ایک نہ سُنی اور دروازہ زور سے بند کر کے چلی گئیں، میں سوچ میں مُبتلا سر جھُکائے سکول کی طرف واپس چل پڑا اور سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں کہ سامنے سے مُجھے فاطمہ سودا سلف کا شاپر اٹھائے آتی نظر آئی۔ میں نے سر پر ہاتھ پھیر کر اس سے سوال کیا کہ آج سکول میں پروگرام ہے آپ آئی کیوں نہیں اور بہن کی پیدائیش پر مُبارکباد دی جس پر فاطمہ کے چہرے پر ایک سنجیدگی نما سکوت طاری ہو گیا، میں نے اس سے بہت سوال کیا مگر اس نے جواب نہیں دیا اور صرف اتنا کہہ کرگھر چلی گئی کہ سر میں آج نہیں آسکتی۔ بہت حیران ہوا کہ جو بچی کل تک اپنی کلاس فیلوز کو بھی گائیڈ کرتی آئی آج ایسے برتاؤ کیوں کررہی، اسی شش وپنج میں مُبتلا سکول پہنچا دل میں ایک دکھ تھا کہ اس بچی سے بہت امیدیں تھیں۔ باقی بچیوں کو اکٹھا کیا اوران میں چارٹ تقسیم کیے اور سب کو مختلف ٹاپک دیے ڈرائینگ کرنے کو اور بوجھل جسم کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا۔ 

اس اثنا میں فاطمہ کی ہمسائی جو اسی سکول میں پنجم کی طالبہ تھی میرے پاس آئی اور اپنی ڈرائینگ دکھا کر بولی "سر فاطمہ اج کینی آندی، اوندے پیو نے اُوکو تے اوندی اماں کو ڈاڈا کُٹے" میں نے سوال کیا کہ کس وجہ سے مارا سکول آنے پر یا ایسے پروگرامز میں شرکت پر۔ اور جو جواب مُجھے ملا وہ آج تک میرے کانوں میں گونج رہا ہے ۔ کہ گھر میں پانچویں بیٹی کی پیدائش پر اپنی بیوی کو مارا ہے اور سب گاؤں میں اعلان کروایا ہے کہ مولوی صاحب سمیت کوئی بھی اس نومولود
بچی کے کان میں اذان نہیں دے گا۔ اور مجبوراََ فاطمہ کی بڑی بہن جو اسی سکول سے پانچویں پاس کر کے گھر بیٹھی تھی نے اپنی نومولود بہن کے کان میں اذان دی۔ یہ سب سُن کر اس وقت اتنا خون کھول رہا تھا کہ اس شخص کو سر بازار گھسیٹنے اور ایسی گری ہوئی حرکت پر اس کی سرزنش کو دل چاہ رہا تھا۔ مگر اپنی نوکری اور پراجیکٹ کے قواعد و ضوابط کی وجہ سے ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکال پا رہا تھا۔ 

آج تک یہی سوچتا ہوں کہ ایک میں ہوں جو بیٹیوں کے لیے درگاہوں پر منتیں بھی مانگتا تھا اور ایک طرف جس شخص پر اللہ نے اتنی رحمتیں نازل کیں اس کا رویہ ان رحمتوں اور اپنی زوجہ کے ساتھ کیا رہا اور کیوں رہا۔ دل آج بھی سوچتا ہے کہ کیا ہم واقعی اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں یا نہیں اور اگر داخل ہو بھی گئے ہیں تو کیا ہمارے اذہان ابھی تک پُرانے اور بوسیدہ ہی ہیں۔

4 سال کے لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے سکول داخلے کے اس پراجیکٹ میں بہت سے ایسے واقعات نظر سے گُزرے جنہی ضرور قلمبند کروں گا کہ کیسے ایک لڑکی کا گھر سے نکل کر سکول تک آنا آج بھی جہاد کرنے کے مترادف ہے۔ وہ جہاد جو حوا کی بیٹی شاید ازل سے کرتی آ رہی ہے اور ابد تک کرتی رہے گی۔ جہاد اس معاشرے کی بوسیدہ سوچ اور غربت سے۔ 

تحریر پر آپ سب کی رائے درکار ہے جو مجھے مزید ایسے واقعات پر لکھنے کو تقویت دے گا۔ 
والسلام