Friday, April 4, 2014

گلی کا کوڑا اور حکومت کی ناکامی

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ 

السلام و علیکم میرے تمام عزیز ہم وطنوں اور سمندر پار حصول رزق کے لیے پردیس کاٹتے میرے پیارے پاکستانیو۔ خود کو بہت روکنے کے باوجود آخر کار یہ پینڈو بھی لکھنے پر مجبور ہو گیا ہے، بہت عرصہ فلاحی اداروں کے توسط سے اپنے پاکستان کے تعلیمی اداروں اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا اور بہت سے حالات و واقعات کا سامنہ ہُوا، وہ سب واقعات میرے دل میں اور زہن میں نقش ہیں اس لیے سوچا کہ اس مسافر خانے (دُنیا) میں اپنا وقت گُزار کر جب واپسی کے لیے لختِ سفر باندھوں تو یہ واقعات اپنے ساتھ ہی مٹی کے نیچے دفن ہونے سے پہلے آپ لوگوں کی نظر کرتا چلوں۔ اچھا لگے یا بُرا یا اختلاف رائے ہو تو آپ سب سے تنقید برائے اصلاح کی اُمید رکھتا ہوں۔

اب آتے ہیں اس پوسٹ کی طرف جس کا نام گلی کا کوڑا اور حکومت کی ناکامی رکھا ہے، سوچا جب لکھنے بیٹھا ہوں تو پہلے اپنے قریبی رونما ہونے والے واقعات پر لکھنے کا سوچا۔

حکومت کی ناکامی:
مُلتان شہر کے ایک پوش علاقے کی ایک مسجد میں بعد نماز عصر ایک باریش بزرگ کھڑے ہوئے اور جماعت میں موجود تمام حضرات کو بہت احترام سے مخاطب ہو کر کُچھ وقت کی درخواست کی، مُجھ پینڈو جیسے ویہلے لوگوں نے انکی شخصیت سے متاثر ہو کر وہاں کُچھ دیر قیام کا سوچا اور دعا کے بعد 10 کے قریب لوگ ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے کہ آج کوئی دین کی بات سُننے کو ملے گی جو علم میں اضافہ کا باعث بن جائے، 

بزُرگ نے بہت ادب و احترام سے دعائیہ کلمات کے ساتھ اپنی گفتگو کا اظہار کیا، اور طہارت پاکیزگی سے بات شروع کرنے والے بزرگ نے کُچھ ہی دیر بعد اپنی گُفتگو کا رُخ سیاست کی طرف موڑتے ہوئے حکمرانوں کے خلاف زہر اُگلنا شروع کر دیا، کہ اتنے بڑے پوش علاقہ اور ہاؤسنگ سوسائیٹی میں بھی صفائی کا کوئی انتظام نہیں، اسی کوڑا کرکٹ سے جراثیم جنم لے کر ہماری اور ہمارے بچوں کی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

میں جو بہت اُمید لے کر وہاں رُکا تھا اس سوچ میں مُبتلا ہو گیا کہ اب کیسے اس فتووں سے بھری محفل سے اجازت طلب کروں، چار و ناچار جیسے کمرہ جماعت میں ہاتھ بُلند کر کے اجازت لی جاتی ہے میں نے ان سے رخصت لی اور چلتا بنا اور گھر تک پہنچتے ہوئے یہ سوچتا گیا کہ وقت کو برباد ہی کیا۔ 

گلی کا کوڑا:
پچھلے کافی عرصہ سے حکومت پنجاب نے، گلی محلوں سے کوڑا اکٹھا کرنے والی گاڑیوں کی سہولت عوام الناس کو فراہم کی ہے جو قریب صبح 9 بجے اپنے مقررہ علاقوں میں گشت کرتی ہیں اور گھر کا کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے اسے شہر سے باہر تک پہنچانے کا کام سر انجام دیتی ہیں، عوام اپنی سہولت کے حساب سے کوڑے کی بالٹی یا اسے شاپر میں باندھ کر دروازے کے باہر رکھ دیتے ہیں جو کہ وہ میونسپل کارپوریشن والی گاڑی اُٹھا لے جاتی ہے، مسجد والے واقعہ سے ٹھیک 2 دن صبح 9 بجے والدہ محترمہ نے فرمایا کہ آج صفائی کرنے والی چھٹی پر ہے تو باہر سے گاڑی گُزرے گی تو کوڑے کی بالٹی باہر رکھ دیں، اتفاقاََ جس وقت میں بالٹی باہر رکھنے گیا تو وہ گاڑی ہمارے دروازے تک پہنچ چکی تھی، میونسپل کارپوریشن کے ملازم نے مجھے سوُٹ بوُٹ میں کوڑے کی بالٹی اُٹھائے دیکھ کر مُجھے کہا کہ بابوُ جی آپ دروازے پر رکھ دیتے ہماری ڈیوٹی ہے ہم اُٹھا لیتے۔ 
اسی اثنا میں میری نظر ہمارے گھر سے 4 گھر چھوڑ کر ایک عالیشان کوٹھی سے نکلتے ہوئے شاپر پر پڑی جو کہ ایسے پھینکا گیا تھا جیسے انڈر آرم تھرو کی جاتی ہے وکٹوں کا نشانہ لینے کے لیے، وہ شاپر کسی راشی پولیس افسر کے پیٹ کی مانند فل بھرا ہوا تھا اور لگ رہا تھا کہ یہ جہاں گرے گا وہاں خود کش حملے کے آفٹر ایفکٹس کا سا سما ہو گا، میں نے گاڑی والے کو آواز دی کے وہ کوڑا گرا دیا ہے کسی نے اسے بھی اٹھا لیں تو بھائی نا چاہتے ہوئے بھی واپس گیا اور اس کوڑے کو کسی اور شاپر میں ڈال  گاڑی تک لے آیا، اور میں روز مرہ کی طرح اپنی ڈیوٹی کی طرف روانہ ہو گیا، 

دوسرے دن والدہ سے معلوم ہوا کہ صفائی والی ماسی بیمار ہے آج بھی نہیں آئی تو آج پھر کوڑا باہر دروازے پر پہنچا دوں، میں اپنی والدہ کے حکم کی تعمیل کرتا باہر پہنچا اور گاڑی ٹھیک اپنے ٹائم پر آئی اور کوڑا لے کر آگے چلی گئی، میں اس کے بعد ناشتہ کر کے آفس کے لیے نکلا تو دیکھا کہ اسی دروازہ سے پھر ایک ویسا ہی کوڑے کا شاپر نمودار ہوا جسے دروازے کے اندر سے ہی کسی خاتوں نے اس بے نیازی سے پھینکا کے اگر کوئی گُزر رہا ہو تو اسی پر جا گرے، مُجھے بہت بُرا محسوس ہُوا اور دل میں ٹھانی کہ آفس سے واپسی پر اس گھر کے افراد سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ 

اس بات کو دل میں رکھے شام کو جب گھر واپس لوٹا تو مغرب کی نماز کے بعد میں اسی دروازہ پر رکا اور گلی کے گارڈ سے اس گھر کے افراد کے بارے میں معلوم کیا تو پتا چلا کہ وہ ایک انجینئر صاحب کا گھر ہے جو کہ آسٹریلیا میں جاب کرتے ہیں ان کے والد اور بیوی بچے یہاں 3 ماہ پہلے یہاں شفٹ ہوئے ہیں، اور انجینئیر صاحب کے والد بہت اچھی نفیس شخصیت ہیں، میں دروازے پر دستک دے کر کُچھ دیر انتظار کرتا رہا مگر کوئی بھی نمودار نہیں ہوا، دو بار اور دستک دے کر جواب نہ ملنے پر میں اس معاملے پر دوسرے وقت پر چھوڑ کر پلٹنے ہی لگا تو مسجد کی طرف سے وہی فتویٰ والے بزرگ آرہے تھے میں نے سلام میں پہل کی ان سے مصافح کیا اور گھر کی طرف چلنے لگا تو بزُرگ نے فرمایا جی بیٹا آپکو کیا کام تھا، آپ نے اس دروازے پر دستک دی، تو میں نے دریافت کیا کہ کیا آپ یہاں رہتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ جی ہاں میں یہاں رہتا ہوں اپنی زوجہ اور بہو بچوں کے ساتھ۔

میرا جیسے حلق سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہو اور الفاظ گلے میں پھنس سے گئے ہوں اور چار و ناچار ہمت جُٹا کر اُن سے گُفتگو کا آغاز کیا کہ محترم روز صُبح ٹھیک 9 بجے کوڑے والی گاڑی گُزرتی ہے آپ مہربانی فرما کر گھر میں تاکید کر دیں کہ اس سے پہلے پہلے کوڑا باہر رکھ دیا کریں تا کہ وقت پر کوڑا اُٹھایا جا سکے اور انہیں نشاندہی کی کہ صبح کا آپ کا پھینکا ہوا شاپر ابھی تک گلی میں موجود ہے بلکہ بلیوں اور آوارہ کتوں نے اس کا پوسٹ مارٹم کر کے اسے دور دور تک پھیلا دیا ہے۔ بزُرگ نے بڑے واشگاف الفاظ میں اس الزام کو ماننے سے انکار کیا کہ ہم تو ڈسٹ بِن استعمال کرتے ہیں شاپر استعمال ہی نہیں کرتے۔ یہ کسی اور نے پھینکا ہوگا۔ اور بہت بُرا سا منہ بناتے ہوئے وہ گھر کے اندر چلے گئے، 

میں اپنا شرمندہ سا منہ لے کر گھر کی طرف چل پڑا اور یہ سوچتا آیا کہ حکومت اور منتظمین کو بُرا کہنے والے ہمارے بھائیوں بہنوں کو کیا اپنی اتنی سی زمہ داری کا احساس نہیں کہ اگر وہ 20 منٹ پہلے وہ کوڑا گھر سے نکال کر باہر رکھ دیں تو ٹائم پر کوڑا اُٹھا لیا جائے گا۔ 

اب آپ خود سوچیے کہ گاڑی نے صبح 9 بجے آنا ہے اُس کے بعد اگلے روز 9 بجے آنا ہوگا، اُن کے چلے جانے کے بعد پھینکا جانے والا کوڑا اگلے دن 9 بجے تک گلی کی زینت بنا رہے گا جو انہی بزرگ کے لیکچر کے مطابق جراثیم پیدا کرنے بیماریوں کا باعث بنے گا۔ کیا ہم معاشرے میں تبدیلی کا آغاز خود سے نہیں کر سکتے ؟ کب تک ہم دوسروں کو تلقین اور خود کو ان سب باتوں سے مُبرا سمجھتے رہیں گے؟

اپنی رائے سے ضرور نوازیے گا،