Wednesday, September 28, 2016

کس سے منصفی چاہیں ؟؟


یوں تو پاکستان کے لیے پچھلے 20 سال سے ہر سال ہی کوئی نہ کوئی کرخت اور تکلیف دہ یادوں کے نقش چھوڑ جاتا ہے۔ ان ہی دلخراش واقعات میں سے ایک 2010 کا سیلاب اور مون سون کا موسم بھی تھا۔ جولائی میں شروع ہونے والے بارشوں کے سلسلے نے دیہی علاقوں میں بہت نقصانات کے تحفے دیے ان سب کے ساتھ ساتھ جو سب سے دلخراش اور تکلیف دہ بات تھی وہ تھی دریائے چناب کے کنارے بسنے والی آبادیوں کا سندھ کے پانی سے تباہ ہونا تھا۔  کہتے ہیں کہ سیلاب آتا ہے تو دریاؤں کی زرخیز مٹی ساتھ لاتا ہے مگر مٹی گارے کے بنے مسکنوں، انسانوں اور مال مویشیوں کے لیے بہت بڑے نقصان کا باعث بھی بنتا ہے۔ 

ایسے ہی 2010 کے سیلاب نے 2000 کے قریب انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیا۔ براہ راست 20 لاکھ سے زائد لوگ سیلاب سے   متاثر ہوئے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 4.5 کھرب روپے کا نقصان ہوا جس میں قریب 50 ارب کا مالی نقصان گندم کی فصلوں کے تباہ ہونے کی صورت ہوا۔ لوگ اپنے مال مویشی اور گھر بار چھوڑ کر کھُلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور تھے سیلاب نے تو انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا تھا مگر بے سر و سامانی کی حالت میں سڑک پر ڈیرہ لگائے لوگوں کے سر پر بارشوں کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ 
پاک فوج نے اپنا ریلیف آپریشن شروع کر دیا تھا اور سیلاب میں پھسے لوگوں کو نکالنے کا عمل جاری تھا۔ 100 سے زائد مُلکی اور غیر مُلکی تنظیمیں بھی ریلیف کا کام کر رہی تھیں اور پنجاب حکومت بھی ریلیف ورک میں پیش پیش تھی۔ ان حالات کے پیش نظر شہری علاقوں کی تاجر یونینز نوکری پیشہ افراد بھی دل کھول کر سیلاب زدگان کی مدد میں مشغول تھے، شہروں میں جگہ جگہ ریلیف کیمپ لگائے گئے تھے، سرکاری سکولوں میں سیلاب زدہ لوگوں کو پناہ دینے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ 

اسی سلسلہ میں چند صاحب حیثیت لوگوں نے کچھ رقم اکٹھا کی اور اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب زدہ علاقے میں امداد پہنچانے کی ٹھانی۔ تمام لوگوں کی متفقہ رائے سے یہ طے پایا کہ شہر سے کھانا پکوا کر سیلاب زدہ علاقوں میں غزا پہنچائی جائے کیونکہ اپنی جان بچا کر بھاگنے والے اپنے ساتھ چولہا یا اناج نہیں لاسکے تھے۔ طے پانے کے بعد زور و شور سے کھانے کی دیگیں پکوائی گئیں۔ اور گاڑی بُک کروا کر پہلے سب سے قریبی علاقے کا رخ کرنے کی ٹھانی۔ 
خاکسار ان دنوں ایک فلاحی ادارے میں کام کرتا تھا اور جنوبی پنجاب کے چپے چپے سے واقف ہو چکا تھا تو کھانا تقسی کرنے کی زمہ داری اپنے سر لی اور کھانا لوڈ کروا کر مظفر گڑھ کے ملحقہ علاقے محمود کوٹ کا رخ کیا کہ وہاں سے ہوتے غازی گھاٹ تک جائیں گے۔ راہ میں جو ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا کہ مظفر گڑھ کے گداگر فقیر چور لٹیرے سب سیلاب زدگان بن کر سیلاب زدہ علاقے کو جانے والی سڑکوں پر موجود تھے اور امداد لے کر آنے والی ہر گاڑی پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے تہیہ کیا کہ شناختی کارڈ دیکھ کر یا شناخت کر کے صرف سیلاب زدگان کی ہی امداد کی جائے اور ایسے نوسربازون پر امداد ٖضائع نہ کی جائے۔ 

جیسے تیسے ہم محمود کوٹ پہنچے ایک ایلیمنٹری سکول میں 11 خاندان آ کر ٹھہرے ہوئے تھے ہم نے امداد وہیں تقسیم کرنے کی ٹھانی اور گاڑی سکول کے اندر لگوا کر وہاں موجود ایک باریش بزرگ سے درخواست کی کہ یہاں جتنے کنبے رہائش پزیر یا پناہ لیے ہوئے ہیں ان کے سربراہان کو اکٹھا کر لیں ہم کنبے کے افراد کے حساب سے لوگوں میں کھانا تقسیم کریں گے۔ ہمارے سوال کے جواب میں جو کچھ اس باریش بزرگ نے روداد بیان کی وہ سُن کر دل بہت بوجھل اور آنکھیں اشکبار ہو گئی۔ بزرگ نے کھانا لینے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ کرخت لہجے میں ہمیں وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا۔ ہمارے ساتھ ایک نوجوان وہاں کھیلتے بچوں کی تصویریں بنانے میں مشغول تھا ہم نے اسے منع کیا کہ شاید اس وجہ سےبزرگ نالاں ہیں۔ 

ہم نے بہت منت سماجت کی کہ ہم یہ کھانا بڑی دور سے پکوا کر آپ لوگوں کے لیے ہی لائے ہیں مگر بزرگ کسی طور بھی تیار نہ تھے، ہم نے پاس موجود کچھ اور افراد کو قائل کرنا چاہا مگر وہ سب بھی بزرگ کے موقف پر قائم تھے۔ بڑی مشکل سے ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ جس دن لوگ لُٹے پُٹے سڑک پر آبیٹھے تھے اسی شام مظفر گڑھ کے ایک نامور شخص نے ان کے لیے کھانے کا انتظام کیا تھا اور اپنے نوکروں کے ہاتھوں دیگیں بھجوائی تھیں اور اس کھانے میں نشہ آور چیز ملا کرپہلے سے لُٹے ہوئے خاندانوں کا بچا ہوا اناج اور لڑکیاں اغوا کر کے لے گئے۔  ہمیں یہ کھانا نہیں چاہیے ہمیں خشک  خوراک لادیں۔ یہ سُن کر ہمارے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آگیا کہ ہم پر اللہ کا عزاب کیوںکر نازل نہ ہو جب ہمارے معاشرے میں ایسے ناسور پل رہے ہیں۔ 

غرض یہ کہ بوجھل قدموں اور ماؤف ہوتے اعصاب لے کر ہم نے وہ تیار کھانا وہی سڑکوں پر موجود جعلی سیلاب زدگان میں تقسیم کیا اور اپنے گھر کی راہ لی کہ جو باقی امداد اکٹھی ہوئی اس کا خشک راشن بنا کر لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔ میرے لیے اس دن وہ 45 کلومیٹر کا سفر پوری زندگی کی مسافت بن چکا تھا۔ یہی خیال زہن میں دھماکوں کی طرح پھٹ رہا تھا کہ بار بار سیلاب سے برباد ہونے کے باوجود ہم نے کیا خاطر خواہ انتظامات کیے، اگر سیلاب سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کر سکے تو سیلاب سے تباہ ہوئے لوگوں کے کی فلاح کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔ 

بڑے فلاحی اداروں سے آنے والی امداد بھی پہلے علاقہ کے ایم پی ایز ایم این ایز کے ڈیروں پر جمع ہوتی تھی اور پھر ان کے دست مبارک سے اپنے منظور نظر لوگوں تک پہنچتی تھی ضرورت مند لوگ ان کے ڈیرے کے باہر صبح سے لائن میں لگ کر شام ہونے کے بعد واپس اپنے بچوں کے پاس خالی ہاتھ ہی لوٹتے تھے۔ یہ ان لوگوں کی داستان بیان کی جو الیکشن سے پہلے ان ہی لوگوں کے دروازوں پر بھیک منگوں کی طرح ووٹ مانگتے پھرتے ہیں مگر مشکل آنے پر کوئی ان اپنے ہی ووٹرز کا حال بھی نہیں پوچھتا۔ 
@JawadAsghar4

Monday, September 26, 2016

بھوک ننگ اور ایٹمی جنگ

 برصغیر پاک و ہند ٹیلنٹ، زراعت و سیاحت کے لحاظ سے مالا مال خطہ ہے۔ جسے انگلستان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے جال میں پھانس کر اپنا غلام بنائے رکھا اور ایک عرصہ حکومت کرنے کے بعد جب یہ خطہ یہاں کے رہنے والوں کے لیے آزاد کیا تو جاتے جاتے ایک ایسا ایشو چھوڑ گیا کہ جسے لے کر اس خطے میں ہمیشہ مسائل رہیں اور ترقی نہ ہو سکے۔ 

کسی ایک بھارتی وزیر اعظم یا حکمران کا دور حکومت اٹھا لیں اسکی دکانداری چلتی ہی کشمیر اور پاکستان مخالف ایجنڈے پر رہی ہے۔ اندرا گاندھی ہو یا راجیو گاندھی، واجپائی ہو یا مودی سب کے پاس اپنی سیاست چمکانے کو ایک ہی ایشو رہا کشمیر اور پاکستان کے خلاف جنگ و نفرت۔ جب جب بھارتی حکمران اپنے عوامی فلاحی ایجنڈے میں فیل ہوئے انہیں پاکستان کے خلاف جنگ کا لالی پاپ ہی ملا جو وہ اپنی عوام کو دے کر اپنی خفگی مٹاتے رہے۔ 

نریندر مودی کو گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے حوالے سے پوری دُنیا اچھے سے جانتی ہے وہ چاہے لاکھ میٹھی زبان استعمال کریں اسے کے پیچھے موجود دوغلا پن اور شرپسندی کسی سے ڈھکی چھُپی نہیں ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی کی الیکشن میں کامیابی کے بعد سے نریندر مودی کا وزیر اعظم بنایا جانا صاف نظر آرہا تھا اسی لیے بھارتی حلقوں میں بھی ایک تشویش کی لہر تھی اور بارہا ان کی مخالفت کی جاتی رہی۔ باقی تمام سیاستدانوں کی طرح مودی نے بھی عوام کو بہت سبز باغ دکھائے اور عوام کی کایا پلٹنے کے عہد و پیماں کیے گئے۔ 

پاکستان جو کہ دہشت گردی کے خلاف پرائی جنگ میں کود کر اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہا ہے کو چین کی طرف سے ایک خوشخبری ملتی ہے کہ گوادر کو فنکشنل کیا جائے اور ایک راہداری تعمیر کی جائے جس سے خطے میں اقتصادی اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ اور تقویت ملے مگر اس کے لیے پاکستان میں موجود دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ناسور کا خاتمہ تھا کیوں کہ امن قائم کیے بغیر کوئی بھی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہ تھا۔  اس امر میں سول حکومت اور افواج پاکستان نے ایک جامعہ حکمت عملی تیار کی۔ 40 ہزار شہریوں اور سکیوریٹی اہلکاروں کی قربانی کے باوجود دہشت گردی کا ناسور کسی طور تھمنے کا نام نہیں لے رہاتھا کہ ایسے میں وہ دلخراش واقعہ پیش آیا کہ جس نے 11 ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر حملے سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور خون آشام اثرات چھوڑے۔ جس کے بعد دہشت گردی کے اس ناسور سے چھٹکارا پانے کو سول اور فوجی قیادت نے کمر باندھ لی اور ضرب عضب باقاعدہ سے شروع کیا گیا۔ 

ضرب عضب میں شمالی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں وسائل اور مزید قربانیاں دینی پڑیں مگر پاکستان میں پائیدار امن کے لیے ہمارے فوجی جوانوں نے دہشت گردوں کا ڈٹ کر مُقابلہ کیا اور انہیں افغانستان کی طرف دھکیل دیا جہاں کئی دہائیوں سے طالبان اور افغان حکومت کی آپسی جنگ جاری ہے۔ غرض یہ کہ پاک چین اقتصادی راہداری پر کام شروع ہوا۔ بھارت اور متحدہ عرب امارات کو یہ بات کسی طور گوارا نہ تھی کہ جس معیشت اور کاروبار پر ان کی اجارہ داری ہے اس میں کوئی حصہ دار بنے۔ 

بےشک اقتصادی راہداری کی تکمیل سے سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہو گا مگر اس کا بہت حد تک فائدہ اس خطے کو بھی ہونا ہے جس خطے میں یہ بنائی جا رہی ہے۔ بے روزگاری بھوک افلاس غرض بنیادی ضروریات کے لیے ترستے ایک ملک کے لیے ایسی راہداری بہت اہمیت کی حامل ہے اور اسی وجہ سے پہلی بار سول حکومت اور فوجی قیادت اس پر ایک ہی رائے رکھتی پائی گئیں۔ 

 جیسے ہی اقتصادی راہداری پر کام شروع ہوا تو اس سے حسد رکھنے والے ممالک نے پراپگینڈا شروع کر دیا کبھی اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی تو کبھی بلوچستان میں دراندازی دہشت گردی اور زیارت حملے جیسے واقعات پیش آنے لگے۔ بھارت پچھلے بیس سال سے ایک ہی کوشش میں مصروف عمل ہے کہ پاکستان کو خطے میں کیا پوری دُنیامیں اکیلا کر دیا جائے مگریہ نہیں جانتا کہ پاکستان کو 3 سرحدیں لگتی ہیں کوئی ایک سرحد نہیں۔ اور خود اقرار بھی کرتا ہے کہ جب تک چین غیرجانبدار نہیں ہو جاتاپاکستان کو اکیلا نہیں کیا جاسکتا۔ 

اقتصادی راہداری کے ہی بغض میں بھارت نے افغانستان اور ایران کو ساتھ ملاتے ہوئے ایران میں چاہ بہار پورٹ کی تعمیر و ترقی کا عندیہ دیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ چاہ بہار پورٹ کا گوادر سے کوئی مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس شوشے کا بھی کوئی خاص اثر اقتصادی راہداری پر نہ پڑ سکا بلوچستان میں بھی پاک افواج کے کامبنگ آپریشن سے بھارت کے عزائم کلبھوشن یادیو کی صورت میں دُنیا کے سامنے آگئے۔ 

غرض کے بیرونی دراندازی سے لے کر پاکستان کے اندرونی سیاسی ماحول کو گرمانے میں بھی بھارت نے کوئی کسر نہ چھوڑی کہ کسی طرح اقتصادی راہداری کا کام رک جائے جیسے 2004 میں اس کی فیزیبیلیٹی اور پلاننگ کے دو سال بعد 2006 میں اس پر کام ٹھپ ہو گیا تھا۔ بھارت نے اپنے پُرانے حربے کو آزمانے کی کوشش کی اور کشمیر میں تشدد اور ظلم کی نئی کہانی شروع کر دی۔ اور آزادی کے لیے نبرد آزما بُرہان وانی کا بیہیمانہ قتل کیا گیا جس سے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو ایک نئی تقویت ملی جو در اصل بھارت نے ہی جان بوجھ کر پیدا کی اور ہمیشہ کی طرح الزام پاکستان پر عائد کیا کہ پاکستان یہ سب کروا رہا ہے۔

بھارت کی شاطرانہ چال کارگر ہوئی پاکستانی شہریوں اور حکمرانوں کے دل میں کشمیر کے لیے موجود ازلی محبت جاگی اور وزیر اعظم پاکستان نے اس ایشو کو اقوام عالم کے سامنے اٹھانے کا عندیہ دے دیا جو کہ بھارت بہت حد تک چاہتا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان نے بُرد باری اور تحمل مزاجی سے کشمیر میں ہونے والے مظالم پر اقوام عالم کی توجہ دلائی اور ایک بار پھر دوستی اور مذاکرات کے دروازے کا راستہ دکھایا اور ایک لفظ بھی جنگ سے متعلق نہ کہا ہاں بھارتی جارحیت اور جنگی جنون کا دفاع کرنے اور منہ توڑ جواب دینے کی بات ضرور کی۔ 

وزیر اعظم کی تقریر جس کا بھارت منتظر تھا نے پہلے سے ہی ایک ڈرامہ تیار کیا ہوا تھا کہ اقوام عالم کے سامنے اپنی خفگی مٹانے کو اور مظلوم بننے کو اپنی ہی فوجی بیرک پر حملہ کرواکر اپنے فوجی شہید کروائے اور ہمیشہ کی طرح واقعہ کے ایک گھنٹے کے اندر اندر الزام پاکستان پر عائد کر دیا جب کہ ابھی علاقہ حملہ آوروں سے کلئیر بھی نہیں کروایا گیا تھا۔ 
وزیر اعظم پاکستان نے اقتصادی راہداری کو زہن میں رکھتےہوئے بہت متوازن تقریر کی اور کشمیر سمیت خطے میں بھارت کی در اندازای اور مجرمانہ حرکات کا ذکر بھی کیا مگر جنگ کی بات نہیں کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے جنگ کا عندیہ دینے یا بھارت سے مقابلے بازی پر پاکستان میں اقتصادی راہداری کا کام کھٹائی میں پڑ سکتا ہے اور جو سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کی بات کر رہے ہیں وہ کبھی بھی اپنا پیسہ ایسی جگہ لگانے نوکہ تیار نہیں ہوں گے جہاں جنگ یا تناؤ کا ماحول ہو۔ 

وزیر اعظم کی تقریر کو لے کر جہاں بھارت میں تکلیف پیدا ہوئی وہیں پاکستان کے اندر موجود کئی عناصر (اینکرز، لنڈے کے دانشور و تجزیہ نگاروں) نے یہ واویلہ شروع کر دیا کہ بھارت اگر پاکستان کا کوئی جاسوس بھارت سے گرفتار کر لیتا تو وہ اسے پنجرے میں بند کر کے اپنے ساتھ اقوام متحدہ لاتا اور اپنی تقریر میں پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتا۔ تو جناب بھارت نے پہلے کب ایسا نہیں کیا بھارت تو پچھلے بیس سال سے اسی حکمت عملی پر کار فرما ہے کہ پاکستان کو دُںیا سے الگ کیا جاسکے اور پاکستان اکیلا رہ جائے۔ موجودہ حالات میں وزیر اعظم پاکستان کو اس ہی رویے کا اظہار کرنا چاہیے تھا کہ ہم خطے میں جنگ نہیں امن چاہتے ہین۔ کہ پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کمر دوہری ہو چکی ہے معاشی  اعتبار سے بہت کمزور ہوچکے ہیں اور مزید جنگ کے خواہاں نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ میں مائیک کے آگے کھڑے ہو کر بھارت پر الزام تراشی کرنا اور جنگی عزائم کا منہ توڑ جواب دینا مشکل نہیں مگر اس کے بعد سرمایہ کاروں کے دل میں پیدا ہونے والے شکوک یقین میں بدل جانا ہمارے لیے معنی خیز ہے۔ 

نریندر مودی بہت حد تک اپنے عزائم اور پلان میں کامیاب ہے کہ وہ جو ایجنڈا لے کر الیکشن میں آئے تھے اس پر عمل نہ کر پانے کی وجہ سے اب یہ پرانا ایٹمی جنگ کا ٹوٹکہ استعمال کر کے عوام کی نظر میں ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں۔ کیونکہ جنگ کی پالیسی استعمال کرتے ہوئے ایک امریکی صدر اپنے ٹینیور کے دو سال نکال گیا اور اسی جنگ کو جاری رکھ کر موجودہ صدر باراک اوباما بھی دو ٹینیور نکال گیا ہے۔ اور اسی جنگی منترے پر نریندر مودی کارفرما ہیں اور بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ غربت اور افلاس کا جو حال اس وقت بھارت میں اس کے ہوتے کبھی بھی ایٹمی جنگ نہیں کی جاسکتی ۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ بات حرف عام ہوئی کہ 60 فیصد بھارتی عوام کے پاس بیت الخلا کی سہولت نہیں اور اس وجہ سے ہائجینک مسائل بڑھ رہے ہیں۔

میری پاکستانی میڈیا پرسنلیٹیز سے التماس ہے کہ وہ بھارتی جنگی جنون کے جواب میں پاکستانی حکمرانوں یا حکومت کی خاموشی یا اطمینان کو غلط رنگ دینے کے بجائے پاکستان کی حالت پر غور و فکر کریں اور بتائیں کہ کیا پاکستان جہاں آج بھی بچے اور عوام بنیادی ضروریات سے کوسوں دور ہیں ایٹمی جنگ کا متحمل ہو سکتا ہے ؟ گو کہ پاکستانی افواج بری ہو بحری یا ہوائی ہر طور تیار اور مستعد ہیں کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں مگر کیا ہم اندرونی جنگ کے ساتھ ساتھ بھارت سے جنگ کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں ؟ کیا اس وقت جب ہم معیشت کو بحال کرنے چلے ہیں اس وقت ہم بھارت کو للکار کر اسی کی ٹون میں جواب دے کر معیشت کو بحال کر پائیں گے یا سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کر پائیں گے ؟ یا ایٹمی جنگ ہی پاک بھارت مسائل کا حل ہے کہ جس کے بعد صدیوں تک اس کے تابکاری اثرات نہیں جاتے۔ اگر کوئی نہیں جاتا تو ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں آج بھی پیدا ہونے والے کئی بچوں کو دیکھ لے جو اس وقت کے تابکاری اثرات کی وجہ سے آج تک بغیر بالوں کے پیدا ہوتے ہیں ؟؟ کیا جہاں بھوک ننگ کا راج ہو وہاں ایٹمی جنگ کار آمد ہے ؟؟

والسلام 


Sunday, September 25, 2016

تعلیم ہے مگر شعور کہاں ؟


ستمبر 2010 کی ایک شام تمام ممالک کے سربراہان یا نمائندے ایک جگہ موجود تھے، طے پا رہا تھا کہ سب اپنے اپنے ملک میں انتہائی غربت، شرح خواندگی، خواتین کو برابری کے حقوق، بچوں کی شرح اموات میں کمی، زچگی میں بہتری، ایڈز ملیریا، اور دوسری بیماریوں کے خلاف موثر اقدامات، بہتر ماحولیات اور ترقی کے لیے باہمی تعلقات کی بہتر بنایا جائے گا۔ ان سب میں تعلیم کے مسائل کو زیادہ اجاگر کیا جا رہا تھا اور یادداشت تیار کی جا رہی تھی جس پر تمام ممالک نے اپنے دستخط کر کے اس کی بھرپور حمایت اور اس پر عمل درآمد کا پیغام دینا تھا کہ 2015 تک ہم یہ تمام اہداف حاصل کر لیں گے۔ اس وقت موجود تمام 189 ممالک (جو اب 193 ہیں) نے اس کی تائید کی ہمراہ 22 بین الاقوامی تنظیموں کے۔  

چند ایک ہی جانتے ہیں کہ اس دستاویز پر دو ممالک نے دستخط نہیں کیے تھے ایک امریکہ جس کا جواز تھا کہ وہ پہلے ہی 100 فیصد شرح خواندگی کا حدف حاصل کر چکے ہیں اور ایتھوپیا جس کا جواز تھا کہ ہمارے ہاں غربت و افلاس اتنی کہ ہم شرح خواندگی 2015 تک سو فیصد نہیں کر سکتے۔  اس دستاویز پر دستخط کرنے والا سب سے پہلا پاکستانی نمائندہ ہی تھا۔  

آج ستمبر 2015 کو گُزرے پورا ایک سال گُزر گیا ایک سوال خود سے کیجیے کیا ہم نے سو فیصد شرح خواندگی کے ہدف کو حاصل کر لیا ؟ آپ کا ضمیر جاگ رہا ہوا تو جواب نفی میں ہوگا۔ اوپر دیے گئے اقوام متحدہ کے گلوبل گولز والے سمٹ کے بعد پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا ماسوائے تعلیمی بہتری پر کام کرنے والی ملکی اور  غیر ملکی تنظیموں کے جن کے اپنے اور بھی بہت سے جھمیلے اور اہداف ہوتے ہیں ۔ 

سال 2010 پیپلز پارٹی کا دور تھا، پاکستان میں سیلاب اپنے پیچھے تباہی چھوڑتا ہوا سمندر میں جا گرا تھا، حکومت کے پاس خاطر خواہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر پاک فوج نے ریلیف ورک شروع کر دیا تھا اور بہت سے فلاحی ادارے بھی میدان میں اتر چُکے تھے۔ ایسے ہی ایک ادارے نے لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کا بیڑہ اٹھایا اور سیلاب زدہ علاقوں میں لڑکیوں کے سکولوں کی تعمیر اور بنیادی سہولیات کو یقینی بنایا جائے تاکہ بچیاں تعلیم سے محروم نہ رہیں۔ اس امر میں ضلع
مظفر گڑھ کے نواحی علاقوں کے سیلاب زدہ سکول منتخب کیے گئے اور ان کی تعمیرات اور تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کا کام شروع کر دیا گیا۔


جنوبی پنجاب میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 103 غیر مُلکی اور مُلکی فلاحی ادارے کام کر رہے تھے۔ جن میں سے کئی سکول کے انفراسٹرکچر پر کئی سکول میں تعلیمی مواد و کُتب فراہم کرنے میں مصروف عمل تھے، کئی ادارے سیلاب زدہ علاقوں میں کنٹینر نما گھر تقسیم کر رہے تھے، کئی کیمپ اور خشک خوراک پہنچا رہے تھے۔

مظفر گڑھ کے علاقے شاہ جمال کے نواحی علاقے عثمان کوریہ کا گرلز ایلیمنٹری سکول ہمارا انتخاب تھا کہ وہاں واشروم خستہ حال تھے چار دیواری کہیں تھی کہیں زمین بوس تھی۔ اس سکول کے سروے کے لیے جب ہم مظفر گڑھ پہنچے تو شاہ جمال سے گُزرتے ہوئے ہمیں ایک سکول کے باہر بچیوں اور والدین کی کثیر تعداد دکھائی دی۔ بڑی تعداد میں طالبات اور والدین کو جمع دیکھ کر تجسس ہُوا کہ آج شاید اس سکول میں کوئی فنکشن ہے یا کوئی ادارہ یہاں کام کر رہا ہے۔

سکول کے نزدیک پہنچنے پر معلوم پڑا کہ یہ علاقہ مکھن والا کہلاتا ہےا ور سکول کا نام گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول مکھن والا ہے، جنوبی پنجاب میں پرائمری سکول میں 2 اساتذہ اور قریب 150 طالبات کی تعداد ایوریج تعداد ہوتی ہے۔ مگر اس دن سکول کے اندر 300 کے قریب طالبات تھیں اور باہر بھی 100 کے قریب والدین اور طالبات کھڑے تھے۔ سکول میں پہنچنے سے پہلے ہمیں ایک ادھیڑعمر خاتون نے روکا اور کہا کہ بیٹا میری بیٹی کو سکول میں داخلہ نہیں دیا جا رہا ہے خدا کا واسطہ ہے میری بیٹی کو سکول میں داخل کروا دیں۔

حیرت اس بات پر ہوئی کہ ہم تو لوگوں کو راغب کرتے پھر رہے تھے کہ بچیوں کو تعلیم کے لیے سکول لازمی بھیجا کریں مگر یہاں ایک ماں اپنی بیٹی کو سکول داخل کروانے کے لیے بضد ہے مگر داخلہ نہیں ہورہا۔ رش کی وجہ سے ہمیں اندر جانے کاراستہ نہیں مل رہا تھا۔ اتنی دیر میں اس ادھیڑ عمر خاتون کو ایک اور خاتون ملنے آئیں اور وہ باتوں میں مشغول ہو گئیں۔ میں نے اپنے پاس موجود تعلیم جانچنےکا ٹُول نکالا اور لڑکی سے سوال پوچھنا چاہا۔ مگر اس نے جواب نہ دیا تو میں نے ٹول واپس بیگ میں رکھ کر دوستانہ ماحول میں اس سے اس کا نام پوچھا، لڑکی نے جھجکتے ہوئے سعدیہ نام بتایا، میں نے پوچھا کہ پہلے کہاں تک پڑھا ہے یا پہلی بار سکول داخل ہونا ہے تو اس کی اگلی بات سُن کر میں حیران ہو گیا۔ لڑکی نے کہا کہ وہ پچھلے سال اسی سکول سے پانچویں جماعت پاس کرچکی ہے مگر چونکہ اس سکول میں ایک این جی او داخل ہونے والی لڑکیون یا والدین کو ڈھائ سے تین کلو کُکنگ آئل دیتی ہے تو اس کی والدہ اسے دوبارہ اسی سکول میں تیسری جماعت میں داخل کروانے پر بضد ہے۔ میں نے اتنا سُن کر بیگ سے لرننگ ٹول نکالا اور اس سے کہا کہ کیا وہ پڑھ سکتی ہے تو اس لڑکی نے انگلش کے فقرے اور سٹوری کا ایک پیرا گراف فر فر پڑھ لیا۔

اتنی دیر میں ادھیڑ عمر خاتون باتوں سے فارغ ہو کر ہماری طرف متوجہ ہوئی اور پھر سے ضد کرنے لگی کی اس کی بیٹی کو سکول میں داخلہ دلوا دیں۔ میں نے جواب دیا کہ آپ کی بیٹی تو پانچویں پاس کر چکی ہے تو دوبارہ اسے تیسری میں کیوں داخل کروانا چاہتی ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ اس لڑکی کے سکول داخلے کی وجہ سے تیل ملتا ہے اور ہم غریب مزدور لوگ ہیں سیلاب سے گھر تباہ ہو گیا تو ایک ہی ذریعہ ہے کہ سکول سے امداد مل جاتی ہے۔

اس بچی کا داخلہ تو ہم نہ کروا سکے کیونکہ وہ اسی سکول میں پہلے داخل رہ چکی ہے مگر ایک سوچ جو دماغ میں اٹک گئی کہ اتنے سکول اور تعلیم کے فروغ کے لیے ادارے کام کر رہے ہیں سکول بھی موجود ہیں اساتذہ بھی مگر تعلیم کی اہمیت جاننے کے لیے شعور کہاں ہے ؟ سکولوں میں ایسی مراعات کہ کہیں کھانا مل رہا ہے کہیں تیل کہیں بسکٹ دیے جارہے تو ایسے سکول میں طالبات تعلیم کیا حاصل کریں گی جہاں ان کا داخلہ ہی اس سوچ میں کروایا گیا کہ کچھ ملے گا۔ ایسی ہی سوچ ہمیں ان علاقوں میں تعلیم کی ترغیب دیتے ہوئے ملی کہ آپ کی این جی او دے گی کیا ؟ ہمارا جواب ہوتا تھا کہ ہم آپ کی بچی کو تعلیم دیں گے شعور دیں گے اور کم و بیش ہر جگہ سے یہی جواب ملا کہ فلاں این جی او تو بچے داخل کروانے پر خشک خوراک دے رہی، یونیفارم دے رہی یا ککنگ آئل دے رہی۔

اس سارے واقعہ کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ اتنے ادارے اتنے سکول موجود ہیں تعلیم نظر آرہی ہے مگر شعور کہاں ہے ؟؟؟ کیا تعلیم دے کر ہماری ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے ؟ کیا اس تعلیم کے ساتھ تعلیم کی اہمیت یا افادیت کا شعور بھی لوگوں تک پہنچایا جا رہا ہے کہ نہیں۔۔۔۔   

Thursday, September 22, 2016

اکیسویں صدی اور حوا کی بیٹی



یہ کہانی ہے مظفر گڑھ کے نواحی گاؤں گلاب والا کی ایک بہت ہنر مند اور ذہین لڑکی فاطمہ کی جو گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول گلاب والا میں جماعت چہارم کی طالبہ تھی۔ ادارہ تعلیم و آگہی کے توسط اور دبئی کیئرز کی فنڈنگ سے سکول میں تعمیرات کا کام کروایا گیا تھا اور تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے خاطر خواہ انتظامات بھی کیے گئے تھے۔ اسی پراجیکٹ کے تحت سکول کی بچیوں میں ڈرائنگ اور تقاریر وغیرہ کا پروگرام رکھا گیا تھا۔ ہم حسب معمول وقت سے پہلے سکول پہنچے صفائی وغیرہ کا انتظام دیکھا اور جن بچوں کو پچھلے دنوں میں اس مقابلے کے لیے تیار کیا انہیں اکٹھا کرنا
شروع کر دیا تاکہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے ریہرسل کر لی جائے۔ سب بچے موجود تھے مگر سب سے زہین بچی جو پڑھائی اور ایسی غیرنصابی سرگرمیوں میں بہت پیش پش رہنے والی سکول میں موجود نہ تھی۔ پریشانی ہوئی تو اس بچی کی ہم جماعت بچیوں سے دریافت کیا کہ وہ بچی کیوں نہیں آئی۔ جواب ملا کہ فاطمہ کے گھر بہن پیدا ہوئی ہے اس لیے وہ نہیں آئی، خاکسار اللہ کی رحمت (بیٹیوں) کے لیے دل میں خاص جگہ رکھتا ہے تو یہ خبر سُنتے ہی اس کے گھر جانے کا سوچا کیونکہ پروگرام شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ سکول سے ایک کلومیٹر دور آبادی میں فاطمہ کا گھر تھا۔ اسی پراجیکٹ کے تحت سکول سے ملحقہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خاطر خواہ سوشل موبلائزیشن بھی کی گئی تھی کہ لوگ لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ دیں اور سکول بھیجیں تو علاقہ میرے لیے نیا نہیں تھا۔ 

فاطمہ کے گھر کے دروازے پر دستک دی تو کچھ دیر بعد فاطمہ کی والدہ جس کے سر پر پٹی بندھی تھی اور ماتھے پر پایوڈین کے نشان بتا رہے تھے کہ چوٹ زیادہ لگی ہے نے دروازہ کھول اور مجھے دیکھتے ہی دوپٹہ ٹھیک کیا اور دروازے کی اوٹ میں ہو کر کہنے لگی " میڈا بھرا اج فاطمہ سکول نہ آسی گھر وچ کم اے" میں نے درخواست کی کہ پچھلے ایک ماہ سے ہم بچی کو تیاری کروا رہے ہیں آج پروگرام ہے یہاں سے انعام پانے والے بچے لاھور جائیں گے چلڈرن کملپلیکس میں بڑے مقابلے میں حصہ لینے۔ مگر انہوں نے ایک نہ سُنی اور دروازہ زور سے بند کر کے چلی گئیں، میں سوچ میں مُبتلا سر جھُکائے سکول کی طرف واپس چل پڑا اور سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں کہ سامنے سے مُجھے فاطمہ سودا سلف کا شاپر اٹھائے آتی نظر آئی۔ میں نے سر پر ہاتھ پھیر کر اس سے سوال کیا کہ آج سکول میں پروگرام ہے آپ آئی کیوں نہیں اور بہن کی پیدائیش پر مُبارکباد دی جس پر فاطمہ کے چہرے پر ایک سنجیدگی نما سکوت طاری ہو گیا، میں نے اس سے بہت سوال کیا مگر اس نے جواب نہیں دیا اور صرف اتنا کہہ کرگھر چلی گئی کہ سر میں آج نہیں آسکتی۔ بہت حیران ہوا کہ جو بچی کل تک اپنی کلاس فیلوز کو بھی گائیڈ کرتی آئی آج ایسے برتاؤ کیوں کررہی، اسی شش وپنج میں مُبتلا سکول پہنچا دل میں ایک دکھ تھا کہ اس بچی سے بہت امیدیں تھیں۔ باقی بچیوں کو اکٹھا کیا اوران میں چارٹ تقسیم کیے اور سب کو مختلف ٹاپک دیے ڈرائینگ کرنے کو اور بوجھل جسم کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا۔ 

اس اثنا میں فاطمہ کی ہمسائی جو اسی سکول میں پنجم کی طالبہ تھی میرے پاس آئی اور اپنی ڈرائینگ دکھا کر بولی "سر فاطمہ اج کینی آندی، اوندے پیو نے اُوکو تے اوندی اماں کو ڈاڈا کُٹے" میں نے سوال کیا کہ کس وجہ سے مارا سکول آنے پر یا ایسے پروگرامز میں شرکت پر۔ اور جو جواب مُجھے ملا وہ آج تک میرے کانوں میں گونج رہا ہے ۔ کہ گھر میں پانچویں بیٹی کی پیدائش پر اپنی بیوی کو مارا ہے اور سب گاؤں میں اعلان کروایا ہے کہ مولوی صاحب سمیت کوئی بھی اس نومولود
بچی کے کان میں اذان نہیں دے گا۔ اور مجبوراََ فاطمہ کی بڑی بہن جو اسی سکول سے پانچویں پاس کر کے گھر بیٹھی تھی نے اپنی نومولود بہن کے کان میں اذان دی۔ یہ سب سُن کر اس وقت اتنا خون کھول رہا تھا کہ اس شخص کو سر بازار گھسیٹنے اور ایسی گری ہوئی حرکت پر اس کی سرزنش کو دل چاہ رہا تھا۔ مگر اپنی نوکری اور پراجیکٹ کے قواعد و ضوابط کی وجہ سے ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکال پا رہا تھا۔ 

آج تک یہی سوچتا ہوں کہ ایک میں ہوں جو بیٹیوں کے لیے درگاہوں پر منتیں بھی مانگتا تھا اور ایک طرف جس شخص پر اللہ نے اتنی رحمتیں نازل کیں اس کا رویہ ان رحمتوں اور اپنی زوجہ کے ساتھ کیا رہا اور کیوں رہا۔ دل آج بھی سوچتا ہے کہ کیا ہم واقعی اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں یا نہیں اور اگر داخل ہو بھی گئے ہیں تو کیا ہمارے اذہان ابھی تک پُرانے اور بوسیدہ ہی ہیں۔

4 سال کے لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے سکول داخلے کے اس پراجیکٹ میں بہت سے ایسے واقعات نظر سے گُزرے جنہی ضرور قلمبند کروں گا کہ کیسے ایک لڑکی کا گھر سے نکل کر سکول تک آنا آج بھی جہاد کرنے کے مترادف ہے۔ وہ جہاد جو حوا کی بیٹی شاید ازل سے کرتی آ رہی ہے اور ابد تک کرتی رہے گی۔ جہاد اس معاشرے کی بوسیدہ سوچ اور غربت سے۔ 

تحریر پر آپ سب کی رائے درکار ہے جو مجھے مزید ایسے واقعات پر لکھنے کو تقویت دے گا۔ 
والسلام