یوں تو پاکستان کے لیے پچھلے 20 سال سے ہر سال ہی کوئی نہ کوئی کرخت اور تکلیف دہ یادوں کے نقش چھوڑ جاتا ہے۔ ان ہی دلخراش واقعات میں سے ایک 2010 کا سیلاب اور مون سون کا موسم بھی تھا۔ جولائی میں شروع ہونے والے بارشوں کے سلسلے نے دیہی علاقوں میں بہت نقصانات کے تحفے دیے ان سب کے ساتھ ساتھ جو سب سے دلخراش اور تکلیف دہ بات تھی وہ تھی دریائے چناب کے کنارے بسنے والی آبادیوں کا سندھ کے پانی سے تباہ ہونا تھا۔ کہتے ہیں کہ سیلاب آتا ہے تو دریاؤں کی زرخیز مٹی ساتھ لاتا ہے مگر مٹی گارے کے بنے مسکنوں، انسانوں اور مال مویشیوں کے لیے بہت بڑے نقصان کا باعث بھی بنتا ہے۔
ایسے ہی 2010 کے سیلاب نے 2000 کے قریب انسانوں کو لقمہ اجل بنا دیا۔ براہ راست 20 لاکھ سے زائد لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 4.5 کھرب روپے کا نقصان ہوا جس میں قریب 50 ارب کا مالی نقصان گندم کی فصلوں کے تباہ ہونے کی صورت ہوا۔ لوگ اپنے مال مویشی اور گھر بار چھوڑ کر کھُلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور تھے سیلاب نے تو انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا تھا مگر بے سر و سامانی کی حالت میں سڑک پر ڈیرہ لگائے لوگوں کے سر پر بارشوں کا سلسلہ بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
پاک فوج نے اپنا ریلیف آپریشن شروع کر دیا تھا اور سیلاب میں پھسے لوگوں کو نکالنے کا عمل جاری تھا۔ 100 سے زائد مُلکی اور غیر مُلکی تنظیمیں بھی ریلیف کا کام کر رہی تھیں اور پنجاب حکومت بھی ریلیف ورک میں پیش پیش تھی۔ ان حالات کے پیش نظر شہری علاقوں کی تاجر یونینز نوکری پیشہ افراد بھی دل کھول کر سیلاب زدگان کی مدد میں مشغول تھے، شہروں میں جگہ جگہ ریلیف کیمپ لگائے گئے تھے، سرکاری سکولوں میں سیلاب زدہ لوگوں کو پناہ دینے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔
اسی سلسلہ میں چند صاحب حیثیت لوگوں نے کچھ رقم اکٹھا کی اور اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب زدہ علاقے میں امداد پہنچانے کی ٹھانی۔ تمام لوگوں کی متفقہ رائے سے یہ طے پایا کہ شہر سے کھانا پکوا کر سیلاب زدہ علاقوں میں غزا پہنچائی جائے کیونکہ اپنی جان بچا کر بھاگنے والے اپنے ساتھ چولہا یا اناج نہیں لاسکے تھے۔ طے پانے کے بعد زور و شور سے کھانے کی دیگیں پکوائی گئیں۔ اور گاڑی بُک کروا کر پہلے سب سے قریبی علاقے کا رخ کرنے کی ٹھانی۔
خاکسار ان دنوں ایک فلاحی ادارے میں کام کرتا تھا اور جنوبی پنجاب کے چپے چپے سے واقف ہو چکا تھا تو کھانا تقسی کرنے کی زمہ داری اپنے سر لی اور کھانا لوڈ کروا کر مظفر گڑھ کے ملحقہ علاقے محمود کوٹ کا رخ کیا کہ وہاں سے ہوتے غازی گھاٹ تک جائیں گے۔ راہ میں جو ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا کہ مظفر گڑھ کے گداگر فقیر چور لٹیرے سب سیلاب زدگان بن کر سیلاب زدہ علاقے کو جانے والی سڑکوں پر موجود تھے اور امداد لے کر آنے والی ہر گاڑی پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے تہیہ کیا کہ شناختی کارڈ دیکھ کر یا شناخت کر کے صرف سیلاب زدگان کی ہی امداد کی جائے اور ایسے نوسربازون پر امداد ٖضائع نہ کی جائے۔
جیسے تیسے ہم محمود کوٹ پہنچے ایک ایلیمنٹری سکول میں 11 خاندان آ کر ٹھہرے ہوئے تھے ہم نے امداد وہیں تقسیم کرنے کی ٹھانی اور گاڑی سکول کے اندر لگوا کر وہاں موجود ایک باریش بزرگ سے درخواست کی کہ یہاں جتنے کنبے رہائش پزیر یا پناہ لیے ہوئے ہیں ان کے سربراہان کو اکٹھا کر لیں ہم کنبے کے افراد کے حساب سے لوگوں میں کھانا تقسیم کریں گے۔ ہمارے سوال کے جواب میں جو کچھ اس باریش بزرگ نے روداد بیان کی وہ سُن کر دل بہت بوجھل اور آنکھیں اشکبار ہو گئی۔ بزرگ نے کھانا لینے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ کرخت لہجے میں ہمیں وہاں سے چلے جانے کا حکم دیا۔ ہمارے ساتھ ایک نوجوان وہاں کھیلتے بچوں کی تصویریں بنانے میں مشغول تھا ہم نے اسے منع کیا کہ شاید اس وجہ سےبزرگ نالاں ہیں۔
ہم نے بہت منت سماجت کی کہ ہم یہ کھانا بڑی دور سے پکوا کر آپ لوگوں کے لیے ہی لائے ہیں مگر بزرگ کسی طور بھی تیار نہ تھے، ہم نے پاس موجود کچھ اور افراد کو قائل کرنا چاہا مگر وہ سب بھی بزرگ کے موقف پر قائم تھے۔ بڑی مشکل سے ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ جس دن لوگ لُٹے پُٹے سڑک پر آبیٹھے تھے اسی شام مظفر گڑھ کے ایک نامور شخص نے ان کے لیے کھانے کا انتظام کیا تھا اور اپنے نوکروں کے ہاتھوں دیگیں بھجوائی تھیں اور اس کھانے میں نشہ آور چیز ملا کرپہلے سے لُٹے ہوئے خاندانوں کا بچا ہوا اناج اور لڑکیاں اغوا کر کے لے گئے۔ ہمیں یہ کھانا نہیں چاہیے ہمیں خشک خوراک لادیں۔ یہ سُن کر ہمارے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آگیا کہ ہم پر اللہ کا عزاب کیوںکر نازل نہ ہو جب ہمارے معاشرے میں ایسے ناسور پل رہے ہیں۔
غرض یہ کہ بوجھل قدموں اور ماؤف ہوتے اعصاب لے کر ہم نے وہ تیار کھانا وہی سڑکوں پر موجود جعلی سیلاب زدگان میں تقسیم کیا اور اپنے گھر کی راہ لی کہ جو باقی امداد اکٹھی ہوئی اس کا خشک راشن بنا کر لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔ میرے لیے اس دن وہ 45 کلومیٹر کا سفر پوری زندگی کی مسافت بن چکا تھا۔ یہی خیال زہن میں دھماکوں کی طرح پھٹ رہا تھا کہ بار بار سیلاب سے برباد ہونے کے باوجود ہم نے کیا خاطر خواہ انتظامات کیے، اگر سیلاب سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کر سکے تو سیلاب سے تباہ ہوئے لوگوں کے کی فلاح کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔
بڑے فلاحی اداروں سے آنے والی امداد بھی پہلے علاقہ کے ایم پی ایز ایم این ایز کے ڈیروں پر جمع ہوتی تھی اور پھر ان کے دست مبارک سے اپنے منظور نظر لوگوں تک پہنچتی تھی ضرورت مند لوگ ان کے ڈیرے کے باہر صبح سے لائن میں لگ کر شام ہونے کے بعد واپس اپنے بچوں کے پاس خالی ہاتھ ہی لوٹتے تھے۔ یہ ان لوگوں کی داستان بیان کی جو الیکشن سے پہلے ان ہی لوگوں کے دروازوں پر بھیک منگوں کی طرح ووٹ مانگتے پھرتے ہیں مگر مشکل آنے پر کوئی ان اپنے ہی ووٹرز کا حال بھی نہیں پوچھتا۔
@JawadAsghar4