Thursday, September 22, 2016

اکیسویں صدی اور حوا کی بیٹی



یہ کہانی ہے مظفر گڑھ کے نواحی گاؤں گلاب والا کی ایک بہت ہنر مند اور ذہین لڑکی فاطمہ کی جو گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول گلاب والا میں جماعت چہارم کی طالبہ تھی۔ ادارہ تعلیم و آگہی کے توسط اور دبئی کیئرز کی فنڈنگ سے سکول میں تعمیرات کا کام کروایا گیا تھا اور تعلیمی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے خاطر خواہ انتظامات بھی کیے گئے تھے۔ اسی پراجیکٹ کے تحت سکول کی بچیوں میں ڈرائنگ اور تقاریر وغیرہ کا پروگرام رکھا گیا تھا۔ ہم حسب معمول وقت سے پہلے سکول پہنچے صفائی وغیرہ کا انتظام دیکھا اور جن بچوں کو پچھلے دنوں میں اس مقابلے کے لیے تیار کیا انہیں اکٹھا کرنا
شروع کر دیا تاکہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے ریہرسل کر لی جائے۔ سب بچے موجود تھے مگر سب سے زہین بچی جو پڑھائی اور ایسی غیرنصابی سرگرمیوں میں بہت پیش پش رہنے والی سکول میں موجود نہ تھی۔ پریشانی ہوئی تو اس بچی کی ہم جماعت بچیوں سے دریافت کیا کہ وہ بچی کیوں نہیں آئی۔ جواب ملا کہ فاطمہ کے گھر بہن پیدا ہوئی ہے اس لیے وہ نہیں آئی، خاکسار اللہ کی رحمت (بیٹیوں) کے لیے دل میں خاص جگہ رکھتا ہے تو یہ خبر سُنتے ہی اس کے گھر جانے کا سوچا کیونکہ پروگرام شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ سکول سے ایک کلومیٹر دور آبادی میں فاطمہ کا گھر تھا۔ اسی پراجیکٹ کے تحت سکول سے ملحقہ علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خاطر خواہ سوشل موبلائزیشن بھی کی گئی تھی کہ لوگ لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ دیں اور سکول بھیجیں تو علاقہ میرے لیے نیا نہیں تھا۔ 

فاطمہ کے گھر کے دروازے پر دستک دی تو کچھ دیر بعد فاطمہ کی والدہ جس کے سر پر پٹی بندھی تھی اور ماتھے پر پایوڈین کے نشان بتا رہے تھے کہ چوٹ زیادہ لگی ہے نے دروازہ کھول اور مجھے دیکھتے ہی دوپٹہ ٹھیک کیا اور دروازے کی اوٹ میں ہو کر کہنے لگی " میڈا بھرا اج فاطمہ سکول نہ آسی گھر وچ کم اے" میں نے درخواست کی کہ پچھلے ایک ماہ سے ہم بچی کو تیاری کروا رہے ہیں آج پروگرام ہے یہاں سے انعام پانے والے بچے لاھور جائیں گے چلڈرن کملپلیکس میں بڑے مقابلے میں حصہ لینے۔ مگر انہوں نے ایک نہ سُنی اور دروازہ زور سے بند کر کے چلی گئیں، میں سوچ میں مُبتلا سر جھُکائے سکول کی طرف واپس چل پڑا اور سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں کہ سامنے سے مُجھے فاطمہ سودا سلف کا شاپر اٹھائے آتی نظر آئی۔ میں نے سر پر ہاتھ پھیر کر اس سے سوال کیا کہ آج سکول میں پروگرام ہے آپ آئی کیوں نہیں اور بہن کی پیدائیش پر مُبارکباد دی جس پر فاطمہ کے چہرے پر ایک سنجیدگی نما سکوت طاری ہو گیا، میں نے اس سے بہت سوال کیا مگر اس نے جواب نہیں دیا اور صرف اتنا کہہ کرگھر چلی گئی کہ سر میں آج نہیں آسکتی۔ بہت حیران ہوا کہ جو بچی کل تک اپنی کلاس فیلوز کو بھی گائیڈ کرتی آئی آج ایسے برتاؤ کیوں کررہی، اسی شش وپنج میں مُبتلا سکول پہنچا دل میں ایک دکھ تھا کہ اس بچی سے بہت امیدیں تھیں۔ باقی بچیوں کو اکٹھا کیا اوران میں چارٹ تقسیم کیے اور سب کو مختلف ٹاپک دیے ڈرائینگ کرنے کو اور بوجھل جسم کے ساتھ کرسی پر بیٹھ گیا۔ 

اس اثنا میں فاطمہ کی ہمسائی جو اسی سکول میں پنجم کی طالبہ تھی میرے پاس آئی اور اپنی ڈرائینگ دکھا کر بولی "سر فاطمہ اج کینی آندی، اوندے پیو نے اُوکو تے اوندی اماں کو ڈاڈا کُٹے" میں نے سوال کیا کہ کس وجہ سے مارا سکول آنے پر یا ایسے پروگرامز میں شرکت پر۔ اور جو جواب مُجھے ملا وہ آج تک میرے کانوں میں گونج رہا ہے ۔ کہ گھر میں پانچویں بیٹی کی پیدائش پر اپنی بیوی کو مارا ہے اور سب گاؤں میں اعلان کروایا ہے کہ مولوی صاحب سمیت کوئی بھی اس نومولود
بچی کے کان میں اذان نہیں دے گا۔ اور مجبوراََ فاطمہ کی بڑی بہن جو اسی سکول سے پانچویں پاس کر کے گھر بیٹھی تھی نے اپنی نومولود بہن کے کان میں اذان دی۔ یہ سب سُن کر اس وقت اتنا خون کھول رہا تھا کہ اس شخص کو سر بازار گھسیٹنے اور ایسی گری ہوئی حرکت پر اس کی سرزنش کو دل چاہ رہا تھا۔ مگر اپنی نوکری اور پراجیکٹ کے قواعد و ضوابط کی وجہ سے ایک لفظ بھی زبان سے نہیں نکال پا رہا تھا۔ 

آج تک یہی سوچتا ہوں کہ ایک میں ہوں جو بیٹیوں کے لیے درگاہوں پر منتیں بھی مانگتا تھا اور ایک طرف جس شخص پر اللہ نے اتنی رحمتیں نازل کیں اس کا رویہ ان رحمتوں اور اپنی زوجہ کے ساتھ کیا رہا اور کیوں رہا۔ دل آج بھی سوچتا ہے کہ کیا ہم واقعی اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں یا نہیں اور اگر داخل ہو بھی گئے ہیں تو کیا ہمارے اذہان ابھی تک پُرانے اور بوسیدہ ہی ہیں۔

4 سال کے لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے سکول داخلے کے اس پراجیکٹ میں بہت سے ایسے واقعات نظر سے گُزرے جنہی ضرور قلمبند کروں گا کہ کیسے ایک لڑکی کا گھر سے نکل کر سکول تک آنا آج بھی جہاد کرنے کے مترادف ہے۔ وہ جہاد جو حوا کی بیٹی شاید ازل سے کرتی آ رہی ہے اور ابد تک کرتی رہے گی۔ جہاد اس معاشرے کی بوسیدہ سوچ اور غربت سے۔ 

تحریر پر آپ سب کی رائے درکار ہے جو مجھے مزید ایسے واقعات پر لکھنے کو تقویت دے گا۔ 
والسلام

5 comments:

  1. بہت خوب جواد بهائی
    عمدہ تحریر
    لکهتے رہیے اور فیضیاب کرتے رہیے
    سلامتی کی دعا

    ReplyDelete
  2. عمدہ بہت عمدہ بڑے بھائی

    ReplyDelete
  3. یہ وہ اصل تصویر اصل رخ ہے ہمارے معاشرے کا انتہائی تکلیف دہ. بہت لمبا سفر درکار ہے اس قوم کو جس کے لئے علم کا حصول فرض قرار دیا گیا

    ReplyDelete
  4. جزاکءاللہ ابوبکر بھائی آپ لوگوں کے عنایت کردہ حوصلے سے مجھے مزید تقویت ملے گی,خوش رہیں

    ReplyDelete
  5. معاشرے کے حقیقی رخ کو اجاگر کیا جواد بھائی آپ نے

    ReplyDelete