Monday, October 10, 2016

زرخیز مٹی


بسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم 

بچوں اور ان کی تعلیم و تربیت بارے پہلے لکھ چکا ہوں اور بھی بہت کچھ ہے جس پر نگاہ کرنا ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں کچھ ننھی کلیاں ایسی بھی ہیں جنہیں ان کے والدین سمیت پورا معاشرہ کم تر سمجھتا ہے۔ ان بچوں میں جو معزور یا نارمل بچوں سے کم تر سمجھے جاتے ہیں ایک احساس کمتری پہلے سے موجود ہوتا ہے اور پھر معاشرے کا بےرحمی سے نظر انداز کرنا اس احساس کمتری کو اتنا پختہ کر دیتا ہے کہ وہ خود میں موجود پنہاں اور بہت سی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار نہیں لاتے۔ جتنے مشاہدات میں نے کیے اس حساب سے اس پر لکھنا اور اس مسئلے کو اجاگر کرنا ضروری سمجھا۔ 

سب سے پہلے نظر کرتے ہیں کہ بچے معزور کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ میں کوئی ڈاکٹر فزیشن یا سپیشلسٹ نہیں ہوں مگر تحقیق اور مطالعہ کا شوق رکھتا ہوں اور اس جستجو میں اپنے موضوع سے ہٹ کر بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک وقت تک بچوں میں معزوری اور ان کی اموات کی وجہ کچھ بیماریاں تھیں جن کی بروقت روک تھا اور دوا نہ کرنے سے بچے معزور رہ جاتے ہیں جس میں پولیو سر فہرست ہے اور اس مرض سے پاکستان آج بھی لڑ رہا ہے۔ دوسری وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ جینیٹک ہے کہ کزن در کزن شادیوں کی وجہ سے ایک نسل معزوری لے کر پیدا ہوتی ہے۔ اس جینیٹک مسئلہ پر بہت تحقیق اور آرٹیکل موجود ہیں اس لیے اس کا صرف حوالہ اس تحریر میں لکھا ہے۔  

یہاں دو مختلف ممالک کی کہانیاں بیان کروں گا ایک میرے اپنے خاندان سے منصوب ہے اور ایک کا مشاہدہ فیلڈ ورک کے  دوران ہوا۔ جیسا کہ تعلیم پر لکھے بلاگ میں ذکر کر چکا ہوں کہ لڑکیوں کی تعلیم پر بہت عرصہ کام کیا جس میں ایک پراجیکٹ Enhancing Girls Enrollment in Remote Areas of Pakistan تھا جس کے تحت دیہی اور دور دراز کے سرکاری سکولوں کی تعمیر و ترقی اور اساتذہ کی نئے طریقہ ہائے تدریس کی تربیت شامل تھی۔ اس سلسلہ میں ضرورت مند سکولوں کی نشاندہی کے بعد وہاں کے اہل علاقہ کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ایسے ہی مُلتان سے ملحقہ علاقے علی والا جو کہ شیر شاہ کے قریب واقع ہے کے سکول گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول علی والا کا انتخاب کیا گیا۔ علاقہ کے لوگوں کو اکٹھا کیا گیا تاکہ سکول کا ترقیاتی منصوبہ عوامی مشاورت سے ترتیب دیا جاسکے۔ 

ہم وقت پر سکول پہنچے اور میٹنگ کے انتظامات کا جائزہ لیا جن بچیوں کے والدین نے سکول کی بہتری کے لیے اپنی خدمات کی حامی بھری وہ پہلے سے سکول میں موجود تھے۔ باقاعدہ میٹنگ کا آغاز کرنے سے پہلے ہم نے مزید لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے سکول کی بچیوں کو اپنے والدین کو سکول لانے کے لیے روانہ کیا۔ میٹنگ کی جگہ کا انتظام دیکھتے ہوئے مجھے کلاس روم کی اس کھڑکی جو سکول کے باہر گلی میں کھلتی تھی میں ایک بچی کو کھڑے دیکھا جو کھڑکی کی جالیوں سے منہ لگائے کسی کو سرائیکی میں ڈانٹ رہی تھی  "اڑی تیکوں آکھا ہائی گھر ونج، استانی صاحبہ تیکوں کُٹے سی چل شاباش گھر ونج" ان الفاظ کو سُن کر تجسس
ہوا کہ بچی کس کو گھر جانے کو کہہ رہی ہے۔ میں خاموشی سے سکول سے باہر اس گلی میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کی ایک بچی ننگے پاؤں مٹی سے لت پت گلی میں اپنے ہاتھوں سے چہرے کو کور کر کے کھڑکی کی جالیوں سے سکول میں جھانک رہی ہے۔ میں نے اسے بیٹی کہہ کر آواز دی تو اس نے مجھے دیکھ کر وہاں سے دوڑ لگا دی۔ جو اکثر دیہاتی بچے کسی شہری کپڑوں میں ملبوس انسان کو دیکھ کر کرتے ہیں۔

میں خاموشی سے سکول کے اندر چلا آیا مگر دماغ میں تجسس بار بار دستک دیتا رہا۔ لوگوں کی مطلوبہ تعداد پہنچنے کے بعد ہم نے میٹنگ شروع کی اور ہمارے سوشل موبلائزرز نے سکول کی بہتری کے پراجیکٹ پر بات کرنا شروع کی مگر میرا دماغ اسی بچی کی سوچ میں مگن تھا کہ بچی کی عمر دیکھنے کو سکول جانے کی لگ رہی تھی مگر ایک بچی سکول میں تو اسے کیوں داخل نہیں کروایا گیا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد میں دوبارہ گلی میں گیا تو دیکھتا ہوں کہ وہی بچی گلی میں کھڑی ہماری گاڑی کے شیشوں پر جمی مٹی پر انگلی سے نقش و نگار بنا رہی ہے۔ میں اس بچی کے دھیان میں لائے بغیر اس کے قریب گیا اور سرائیکی میں اس سے اس کا نام پوچھا پہلے وہ کچھ ہچکچائی اور ایک لمحے کو لگا کہ وہ پھر بھاگ جائے گی مگر اس بچی نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا "ساما" اس کی زبان سے ادا ہوتے الفاظ سے اندازہ ہوا کہ بچی معزور ہے اور یہ سمجھنے میں بھی دیر نہیں لگی کہ آخر اسے سکول کیوں داخل نہیں کروایا گیا۔ 

میں نے اس بچی سے سوال کیا کہ سکول میں پڑھنا چاہتی ہے تو اس نے اس طرح اثبات میں سر ہلایا جیسے اس کی دلی خواہش میرے منہ سے نکل گئی ہو، میرے پاس ڈائری میں بچوں کے Learning level چیک کرنے کے اردو انگریزی اور ریاضی کے چند Tools موجود تھے وہ نکال کر میں نے بچی کو دکھاتے ہوئے کہا کہ قاعدہ لینا ہے ؟؟ بچی نے مثبت انداز میں سر ہلا کر جواب دیا جس پر میں بچی کو سکول کے اندر چلنے کو کہا اور اس بات پر بچی کے چہرے پر آئی رونق ایک دم خوف میں تبدیل ہو گئی اور اس نے سکول میں اندر جانے سے انکار کر دیا۔ بچی کی زہنی حالت کو سمجھتے ہوئے میں نے زیادہ اصرار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور وہ Tools اس بچی کو قاعدے کے طور پر دے کر خود سکول کے اندر چلا گیااور اس بچی کو تلاش کرنے لگا جو سکول کے اندر سے صائمہ کو گھر جانے کی تنبیہہ کر رہی تھی۔ بہت تلاش کے بعد مجھے وہ بچی سوئم (3) کلاس میں بیٹھی نظر آگئی، کلاس میں موجود معلمہ سے اجازت لے کر کلاس میں داخل ہوا اور ساری روداد ان کے گوش گزار کی جس پر انہوں نے کہا کہ وہ بچی معزور ہے صحیح سے بول نہیں سکتی اس کی بہن میری ہی کلاس میں پڑھتی ہے۔ میں نے درخواست کی کہ آپ اس بچی کو کل سکول بُلوا لیں میں اس بچی کا ٹسٹ لینا چاہتا ہوں جس پر انہوں نے حامی بھر لی۔ 

دوسرے دن میں سکول پہنچا تو وہ بچی اپنی بہن کے ساتھ کلاس روم میں موجود تھی اور مجھے کلاس میں داخل ہوتا دیکھ کر اس بچی کے چہرے پر آنے والی مسکراہٹ اس کے زہین ہونے کا یقین ہوا کہ ایک ملاقات میں بچی کو اتنی پہچان ہے ہو گئی تھی۔  میں وہیں ایک خالی ڈیسک پر بیٹھ گیا اور اس بچی کو پاس بُلایا کہ آپ کے لیے اور قاعدے لایا ہوں بچی نے سوالیا نظروں سے اپنی بڑی بہن کی طرف دیکھا جس نے اسے سر کے اشارے سے میرے پاس جانے کو کہا۔ میں نے اس کی بڑی بہن کو بھی پاس بُلایا اور پوچھا کہ اسے سکول میں داخل کیوں نہیں کروایا گیا تو معلوم ہوا کہ اسے کچی میں داخل کروایا تھا مگر یہ کلاس میں تنگ کرتی اور
سبق یاد نہیں کر پاتی تھی تو مس صاحبہ نے اسے گھر بھیج دیا تھا۔ میں نے اپنی ڈائری سے Tool نکالے اور اس بچی کو کہا کہ مُجھے پڑھ کر سُناؤ، اس بچی کو اردو حروف تہجی پورے آتے تھے اور انگلش کے کہیں کہیں اٹک رہی تھی۔ میں نے کاغذ نکالا اور اس بچی کے سامنے رکھا کہ جو یہاں لکھا ہے وہ کاغذ پر لکھ کر دکھائے۔ بچی نے ٹوٹے پھوٹے مگر حروف بالکل ٹھیک لکھے مطلب کہ بچی میں صلاحیت موجود تھی اورکحروف لکھنے کے بعد میرے شاباش دینے پر وہ کتنی خوش تھی میں الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ میں پہلے سے اس بچی کے لیے کچھ ٹافیاں اور چاکلیٹ لے کر گیا تھا جو میں نے انعام کے طور پر اس بچی کو دیں۔ اور کلاس میں اس کی بہن کے پاس بٹھا دیا۔ بعد ازاں سکول کا وقت ختم ہونے پر میں نے سکول کی 6 استانیوں سمیت ہیڈ معلمہ کو کچھ دیر رکنے کو کہا اور ایک کلاس روم میں میٹنگ کے لیے بلایا اور سوال کیا کہ یہ بچی سکول داخل ہونے آئی تھی ؟ تو جواب ملا کہ جی بالکل یہ سکول آئی تھی اور ہم نے اسے داخل بھی کیا تھا مگر یہ باقی بچوں کے قاعدے اور کاپیاں پھاڑ کر ان کے جہازبناتی ہے یا ان پر پنسل سے نقش و نگار بنا کر خراب کر دیتی تھی اس لیے ہم نے اسے گھر بھیج دیا کہ بچی ایبنارمل ہے۔ مجھے اس لفظ پر بہت دُکھ ہوا اور درخواست کی کہ بچی کے لیے ایسے الفاظ استعمال نہ کریں۔ بچی میں صلاحیت ہے آپ اسے داخل کریں ہم اپنے پراجیکٹ سے ایک پیرا ٹیچر جسے پراجیکٹ سے ہی تنخواہ دی جائے گی مقرر کرتے ہیں وہ اس بچی پر توجہ دے گی۔  ایسے دھتکارنے سے بچی پر منفی اثرات پڑیں گے۔ غرض کہ اس بچی کا نام داخل کروا کر میں نے اس کی بڑی بہن سے اس کے والدین سے ملنے کی خواہش ظاہر کی مگر دیہی علاقوں میں خواتین پردہ داری کے پیش نظر اجنبیوں سے نہیں ملتیں تو میں نے ہیڈ معلمہ سے ہی درخواست کی کہ آپ اس بچی کے والدین کو سکول بلوائیں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ اس بچی پر خصوصی توجہ دیں نہ کہ معزور جان کر اسے نظر انداز کریں۔

بعد ازاں اس سکول میں جتنی بار بھی جانا ہوا وہ بچی مجھے خصوصی طور پر آکر ملتی تھی اور گھر سے باندھ کر لایا پراٹھا دیتی تھی۔ یا جتنی بار بھی اس سکول کی استانیوں کو ٹریننگ سیشن کے لیے بلاتے تھے وہ ہر بار اس بچی کا تذکرہ کرتی تھیں کہ صائمہ آپ کو بہت یاد کرتی ہے۔ اور جتنی بار بھی میرا سکول جانا ہوا وہ مجھے ایسے گلے ملتی تھی جیسے میں اس کاکوئی سگا رشتے دار ہوں۔ وہ بچی اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ دستکاری بھی سیکھ رہی ہے اور بہت اچھی کڑھائی کر لیتی ہے اور سُننے میں آیاتھا کہ سلائی کڑھائی سے وہ اپنی والدین کی مدد بھی کر رہی ہے جسے سُن کر مُجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ شاید اپنی اولاد کی کامیابی پر بھی کبھی اتنی خوشی نہ ہوئی ہو۔  ایسے بہت سے کیسز مجھے سابق وزیر خارجہ محترمہ حنا ربانی کھر صاحبہ کے آبائی علاقے بستی لسوڑی کھر کے علاقے میں بھی ملے،کیونکہ کھر فیملی اپنی بیٹیوں کو گھر بٹھا کر بوڑھا کر دیتے ہیں غیر خاندان میں شادی نہیں کرتے کہ جائداد خاندان سے باہر نہ جائے۔ مگر اس کے نتیجے میں ان کے ہاں پیدا ہونے والی اولادیں اس قدر معزوری کا شکار ہیں کہ ان کو دیکھ کر بھی ایک جھرجھری سی آتی ہے۔ ہماری کاوشوں کے باوجود کھروں کے علاقے میں فلاحی کام نہیں کرنے دیا گیا کہ ہمیں نہیں چاہیے تعلیم این جی اوز والے بے حیائی پھیلاتے ہیں خواتین بے پردہ  ہو کر مردوں کے ساتھ گھومتی ہیں وغیرہ وغیرہ 

اب ذکر کروں گا اپنے ہی ایک چچا کے بیٹے اور دوسرے چچا کی بیٹی کی اولاد کی۔ ہمارے معاشرے میں اپنے خاندان میں شادی ایک عام بات ہے۔ پرائی کو بسانے کے بجائے اپنے خاندان کی بچیوں کو بسانے کا رواج کم و بیش ہر ذات و پات والے خاندان میں پایا جاتا ہے۔ میرے بڑے چچا کویت میں کیمیکل انجینیر ہیں اور بہت اچھی پوسٹ پر پچھلے 17 سال سے تعینات ہیں ان کی شادی بھی ان کی کزن سے ہوئی جس بنا پر ان کے بڑے بیٹے کی قوت سماعت میں کچھ تھوڑی بہت معزوری کا عنصر موجود ہے۔ جوان ہونے پر جب اس کی شادی اپنے ہی چچا کی بیٹی سے کی گئی تو ان کے ہاں پیدا ہونے والی اولاد کو ریڑھ کی ہڈی میں موجود حرام مغز میں ایک پراسرار بیماری کا سامنا ہے، دُنیا جہان کے ڈاکٹرز اور فزیشنز کو دکھا لیا مگر اس بچے کا علاج ممکن نہیں ہوا۔ اس بیماری کی وجہ سے وہ بچہ چلنے پھرنے سے معزور ہے ۔ اس کے والدین دادا  دادی نے کونسا جتن ہو گا جو نہیں کیا۔ 

کویت میں اس بچے کو وہ جس جگہ بھی شاپنگ مال ہو یا پلے لینڈ ہر جگہ خاص رعایت اور خاص توجہ ملتی ہے۔ حتیٰ کہ ہوائی سفر کے دوران بھی اسے خاص رعایت دی جاتی ہے۔ اس بچے کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ والدین کی پریشانی بڑھتی چلی گئی کہ اسے سکول میں کیسے داخل کروائیں یہ تعلیم کیسے حاصل کرے گا۔ کیا بنے گا۔ جبکہ ٹانگوں اور نچلے دھڑ سے معزور بچا اتنا زہین ہے کہ ٹیب یا موبائل پر گیمز خود لگا لیتا ہے خود کھیلتا اور ٹاپ بھی کرتا ہے ۔

اب کچھ ذکر کروں گا اپنے ایک رشتہ دار کا جو 20 سال سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں ان کے ہاں 4 بچے بالکل ٹھیک ہوئے ایک بچہ ایسا پیدا ہوا جس کے دل اور پھیپھڑے میں سوراخ تھا اور دماغی کمزور بھی۔ یہاں داد کی مستحق آسٹریلیوی حکومت ہے کہ جس نے اس بچے کے علاج کے لیے دُنیا کے 6 بہترین اور ماہر سرجنز اور پروفیسر ڈاکٹرز کو آسٹریلیا بُلوایا اور اس بچے کے علاج یا سرجری کے لیے میٹنگز اور کنسلٹنسی کی۔ آج سے 4 سال پہلے اس بچے کا آسٹریلیا میں ہی کامیاب آپریشن ہوا اور باقاعدہ دیکھ بھال کے لیے ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف مقرر کیا گیا جو سرکاری خرچ پر اس  بچے کی صحت کو مانیٹر اور دیکھ بھال کرتا رہا۔ اس کے بعد اس بچے کو ایڈلیڈ کے اچھے سکول میں داخل کروایا گیا اور وہاں بھی اسے خصوصی توجہ دی گئی۔ غرض اس بچے کی وجہ سے والدین کو سرکار کی طرف سے  اضافی خرچ بھی دیا جاتا ہے اور ہر ماہ اس بچے کو تفریحی مقامات کی سیر کے لیے سہولیات اور پروٹوکول بھی دیا جاتا ہے۔ 

ان سب واقعات کو ایک جگہ رکھ کر سوچیے شاید آپ کے دل میں بھی یہ سوال جنم ہے کہ ہماری عدم توجہی ایسے ادھ کھلے پھول جو پہلے ہی قدرت کی طرف سے کسی کمی کا شکار ہیں کے مرجھانے کا سبب بنتی ہے۔ چاہے معزور ہیں بول نہیں سکتے سُن نہیں سکتے یا نارمل بچوں کی طرح نہیں تو کیا یہ ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ؟ پنجاب کی حد تک ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے علیحدہ سکول بنائے گئے ہیں اور ٹرانسپورٹ کی سروس بھی مہیا کی گئی ہے مگر باقی تین صوبوں میں ایسے بچوں کے لیے خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آتے۔ کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا کے تیزی سے مشہور ہوتے ایک پلیٹ فارم Twitter پر خیبر پختونخواہ کے تین بھائی بہنوں نے ہم سے رابطہ کیا کہ ہمارے ہاں معزور بچوں کی تعلیم کے لیے پرائمری سے آگے کوئی سکول نہیں ہے اور جو چند پرائمری سکول ہیں وہاں بھی سہولیات کا فقدان ہے تو آپ ہماری مدد کریں کیونکہ آپ ایک سیاسی پارٹی کے لیے سوشل میڈیا پر تحریکیں چلاتےہیں تو ہماری بھی کچھ مدد کیجیے۔ سونیا نامی اس بچی کے لیے ہم نے ٹرینڈ بنائے مگر صحت اور تعلیم کے انصاف کے نعرے لگانے والی پختونخواہ حکومت نے پچھلے تین سالوں میں عام سکولوں کے لیے کچھ خاص اقدامات نہیں کیے تو معزور بچوں کی تعلیم پر کیا توجہ دینی تھی۔ اپنی تحریر کے توسط میں ان والدین سے تو اپیل کر ہی رہا ہوں کہ وہ اپنے معزوری کا یا کمی کا شکار بچوں کو کسی طور نظر انداز نہ کریں بلکہ نارمل بچوں سے زیادہ توجہ دیا کریں وہیں اپنی وفاقی حکومت سے درخواست بھی کروں گا کہ وہ ایسے بچوں کے لیے باقی تین صوبوں میں تعلیمی ادارے قائم کریں اور پہلے سے کمی کا شکار بچوں کو مزید کمی اور پسماندگی میں مت دھکیلیں۔ سیم اور تھور زدہ علاقے میں اگر کاشت ممکن نہیں تو اس زمین کا علاج سفیدے کے درخت ہیں جو روزانہ خاطر خواہ پانی زمین سے لیتے ہیں اور ان کی کاشت سے سیم و تھور زدہ زمین بھی قابل استعمال ہو سکتی ہے تو یہ تو پھر انسان ہیں اشرف المخلوقات ہیں یہ عدم توجہی کا شکار کیوں۔


دُنیا میں کئی ایسے معزور افراد بھی ہیں جو کامیابیوں کے زینوں کو عبور کرتے شہرت کی بلندیوں پر پہنچے ان کا ذکر کرنا ضروری ہو گا۔ ایسے لوگوں میں فزکس کے سائنسدان سٹیفین ہاکنگ ہیں جو پیدائشی معزور تو نہیں تھے مگر بعد ازاں ایک اعصابی بیماری کا شکار ہوئے کہ پورا جسم ان کے کنٹرول سے باہر ہو گیا۔ مگر ان میں موجود ہمت تھی جس نے انہیں فزکس میں ان کی مہارت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ ان میں اتنی لگن پیدا کی کہ معزوری کے باوجود انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا۔

تاریخ ایک اور ایسے انسان کو یاد رکھے گی جو ایسی معزوری لے کر پیدا ہوا جس میں نہ اس کے بازو تھے نہ ہی ٹانگیں مگر اس شخص میں ہمت و حوصلہ اتنا تھا کہ اس نے معزوری سے لڑنے کے لیے کئی مثالیں قائم کیں یونیورسٹیز کالجز اور شوز میں جا کر لوگوں کے حوصلے بلند کیے کہ معزوری آپ کی نیت اور آپ کی ہمت کے آڑے نہیں آ سکتی۔ مجھے اس شخص جس کا نام نِک وجیچِچ ہے نے اس قدر متاثر کیا کہ میں جو پہلے باقی سب لوگوں کی طرح معزور افراد کے لیے رحم اور ہمدردی کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا کو ایسے لوگوں کےلیے کچھ کرنے کی ہمت دی۔ نِک کی ایک ویڈیو کا لنک شیئر کررہا ہوں اور آپ سے درخواست کروں گاکہ ایک بار اس ویڈیو کو ضرور دیکھیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=oWEZZbcnEg4

غرض یہ کہ ہماری تھوڑی سی کاوش تھوڑی سی جستجو سے ایسے بچوں یا افراد کو وہ ہمت و حوصلہ مل سکتا ہے جس کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے لوگ اپنے اندر پنہاں صلاحیتوں کو سامنے لا سکتے ہیں ان میں موجود احساس کمتری کو ختم نہ سہی کسی حد تک کم ضرور کر سکتےہیں۔ آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ

" زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی "

@JawadAsghar4

8 comments:

  1. جواد بهائی اس تحریر پر اظہارِ خیال کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں
    سوائے دعائے خیر کے
    اللہ آپ کے دل کی تمام خواہشات پوری کرے.آمین یا رب العالمین

    ReplyDelete
  2. جواد بھائی بالکل درست کہا آپ نے ہمارے ہاں حکومت تو چھوڑیں اکثر والدین اپنی اولاد کو مکمل نظر انداز کر دیتے ہیں جن میں تھوڑی سی بھی کمی ہو. بہت زبردست لکھا ہے

    ReplyDelete
  3. جواد بھائی مجھے آپ پر فخر ہے
    کہ
    آپ خدمت خلق پر عمل پیرا ہیں
    بہت ہی عمدہ تحریر

    ReplyDelete
  4. کمال کا لکھا هے
    هم سب کو اس معاملے په توجه دینے کی ضرورت هے- هماری ذرا سی محنت سے ایسے بچے مفید شهری بن سکتے هیں
    میرا اپنا بیٹا جو ماشاالله سے اب 7 سال کا هے پیدائیشی معذوری کا شکار هے (due to lower part paralization)
    ایک اچھا طالبعلم هے اور نارمل سکول میں زیر تعلیم هے
    ایسے اشوز په مسلسل توجه دلانے کی ضرورت هے, الله آپکو اسکا اجر عطا کرے, آمین
    الله کرے زور قلم اور زیاده
    (آخری درویش)

    ReplyDelete
  5. اللہ ہم سب سے کوئی نہ کوئی ایسا کام لے لے جو معاشرے اور ملک و قوم کیلئے مفید ہو. ماشاءاللہ زبر دست لکھا ہے ۰

    ReplyDelete
  6. ماشاءاللہ جواد بھائی بہت خوبصورت آکاوش

    ReplyDelete
  7. رب سلامت رکھیں آپ کی یہ آکاوش کو قبول فرمائے آپ کی محنتوں کو کامیاب فرمائے بہت خوبصورت کام کر رہے آپ آپ سے ملاقات ملتان ایک میٹنگ کے موقع پر ہوئی تھی بہت تعریف سنی تھی آپ کی آج اس تعریف کی وجہ دیکھ رہا ہوں

    ReplyDelete